skip to Main Content
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

احمد حاطب صدیقی

…….

وہ غائب ہوچکا تھا۔۔۔سب سوچ رہے تھے کہ آخر وہ سلام والا لڑکا گیا کہاں؟

…….

’’آج تو بابا جی کو ۔۔۔ ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ ضرور ۔۔۔ہی ہراکر چھوڑوں گا۔‘‘

احمد نے گھر سے نکلتے ہوئے ہی دل میں ٹھان لی۔اب آپ سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ احمد بھلا کون سے بابا جی کو کس کھیل میں ہرانے کا سوچ رہا تھا؟ ارے بھئی کسی کھیل ویل کی بات نہیں ہو رہی۔ احمد انھیں کسی کھیل میں ہرانے کا سوچ ہی نہیں رہا تھا۔یہ بات ہی کچھ اور تھی۔ مگر بات تھی بڑے مزے کی ۔

یہ بات اُس وقت کی ہے جب احمد پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ وہ صبح صبح اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلتا۔اپنی گلی پار کر کے سڑک پر آتا۔پھر سڑک کے کنارے کنارے فٹ پاتھ پر چلنے لگتا۔ تھوڑی دور آگے جا کرفٹ پاتھ سے اُترتا اور مسجد کے ساتھ والے رستے پر چل پڑتا۔ مسجد بھی تو سڑک کے کنارے ہی بنی ہوئی تھی۔اُسے مسجد کے ساتھ ساتھ بنا ہوا یہ خوب صورت رستہ بہت اچھا لگتا تھا۔ دونوں طرف پھولوں کی کیاریاں تھیں۔کیاریوں کے بعد گھاس کا میدان تھا۔میدان کیا تھا؟باغ تھا! اس باغ میں اُونچے اُونچے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ اس چھوٹے سے باغ کے بعدمحلے کا چھوٹا سا بازار پڑتا تھا۔بازار کے سامنے ہی اسکول والی سڑک تھی۔وہ، بتانے والی بات یہ تھی کہ احمد جب مسجد کے قریب پہنچتا توٹھیک اُسی وقت مسجد سے ایک بابا جی نکل آتے۔ سفیدکرتا، سفید شلوار، سفید ٹوپی اور سفید ڈاڑھی۔ احمد کو بابا جی بہت اچھے لگتے تھے۔ یہ باباجی اس وجہ سے بھی اچھے لگتے تھے کہ وہ مسجد سے نکلتے ہی احمدکی طرف مسکر اکر دیکھتے اوربڑے پیار سے کہتے:’’السلام علیکم!‘‘

احمد آگے بڑھ کر اُن سے ہاتھ ملاتا اور شرمندہ ہوتے ہوئے دھیرے سے کہتا:’’وعلیکم السلام۔‘‘

پھر وہ اسی طرح شرمندہ شرمندہ میدان والا باغ پار کرتا اور بازار میں داخل ہو جاتا۔ احمد کو شرم اِس بات پر آتی تھی کہ باباجی پہلے کیوں سلام کر دیتے ہیں۔ کیا اُن کو پتا نہیں ہے کہ سلام بڑوں کو کیا جاتا ہے۔بھئی چھوٹے سلام کرتے ہیں بڑوں کو۔میں کوئی اُن سے بڑاہوں کہ وہ مجھے سلام کردیتے ہیں؟ احمد چاہتا تھا کہ وہ خود بابا جی کو سلام کِیا کرے۔ مگر ہر روز یہی ہوتا تھا۔ باباجی پہلے سلام کر جاتے تھے۔

یہ سلسلہ اسی طرح چل رہا تھا۔ کل بھی یہی ہوا تھا۔ مگر کل احمد نے ایک نئی بات سنی۔ہوا یوں کہ کلاس میں اسلامیات کے سر نے بتایا:’’جو پہلے سلام کرتا ہے، اُس کو زیادہ ثواب ملتا ہے۔ اللہ میاں اُس سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔‘‘

’’اچھا بچُّو!۔۔۔‘‘احمد نے یہ بات سن کر اپنی آنکھیں مٹکائیں اور دل ہی دل میں سوچا:’’اچھا ۔۔۔ تو بابا جی اِس چکر میں مجھے پہلے سلام کر جاتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ روز اُن کو مجھ سے زیادہ ثواب مل جائے!‘‘

احمد ہر روز جس وقت گھر سے نکلتا تھا، آج اُس وقت سے پانچ منٹ پہلے ہی نکل آیاتھا۔پھر گھر سے نکلتے ہوئے اُس نے وہی بات سوچی:’’آج تو بابا جی کو۔۔۔ ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ ہی ہرا کر چھوڑوں گا۔‘‘

احمد گلی سے نکل کر سڑک پر آیا اور پھر سڑک سے اُتر کر مسجد والے رستے پر چل پڑا۔ مگر بازارکی طرف نہیں گیا۔ گھاس کے میدان والے باغ کے دائیں طرف مسجد کا جو بڑا دروازہ ہے، بس اُسی کے پاس ایک طرف چھپ کر کھڑا ہو گیا۔باباجی اپنے وقت پر مسجد سے نکلے۔ ابھی وہ اپنی چپلیں پہن ہی رہے تھے کہ احمد اچانک اُن کے سامنے آگیا اور بڑے زور سے کہا:’’السلام علیکم!‘‘

باباجی چپلیں پہنتے پہنتے چونک گئے۔ احمد کو دیکھا تو خوب مسکراے۔ پھر اسی طرح مسکراتے ہوئے اُنھوں نے بڑے جوش سے جواب دیا:’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔‘‘

احمد اپنی جیت پر بہت خوش تھا۔ آج وہ بابا جی سے جیت گیا تھا۔آج پہلے سلام کرنے کا سارا ثواب اُس کو مل گیا تھا۔ مارے خوشی کے اُس نے یہ بات بابا جی سے بھی کہہ دی:’’بابا جی! آج تو میں آپ سے جیت گیا۔ پہلے سلام کرنے کا ثواب مجھے مل گیا۔‘‘

احمد کی یہ بات سن کر باباجی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا:’’ہاں بیٹا۔۔۔ آج آپ سلام میں پہل کرکے مجھ سے جیت گئے۔‘‘

یہ کہہ کر باباجی تھوڑی دیر کو چپ ہوئے۔ کچھ سوچتے رہے۔ پھر بولے:’’۔۔۔ لیکن میں ایک بات میں آپ سے جیت گیا۔‘‘

’’لے بھئی۔۔۔!‘‘ احمد نے دل ہی دل میں سوچا: ’’اب یہ کس بات میں مجھ سے جیت گئے؟ سلام تو میں نے پہلے کیا تھا۔‘‘

’’باباجی! آپ کس بات میں مجھ سے جیت گئے؟ آج تو میں نے پہلے سلام کیا ہے۔‘‘

احمد نے حیرت سے پوچھاتوبابا جی نے کہا:’’ہاں! بے شک۔آج آپ کو ’پہلے سلام کرنے‘ کا ثواب مل گیا، اور ’سلام ‘ کا ثواب بھی مل گیا۔مجھے پہلے سلام کرنے کا ثواب تو نہیں ملا، مگر سلام کا ثواب مجھے آپ سے زیادہ مل گیا۔‘‘

’’کیسے؟!!‘‘

احمد تو حیران ہی رہ گیاتھا۔ اُس نے سوچا کہ باباجی اپنے نمبر بڑھانے کے لیے ضرور کوئی نیا چکر چلا رہے ہیں۔ پَر باباجی نے جواب یوں دیا:’’ایسے کہ ۔۔۔آپ نے کہا۔۔۔ ’السلام علیکم‘۔۔۔ آپ کو ملیں دس جمع دس، کُل بیس نیکیاں۔۔۔ میں نے جواب میں کہا ۔۔۔’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘۔۔۔مجھے مل گئیں چالیس نیکیاں۔۔۔ آپ کی نیکیوں سے ڈبل نیکیاں۔۔۔ اِس مقابلے میں تو مَیں جیت گیا۔۔۔ ہاہا ہاہا۔۔۔‘‘بابا جی نے تالیاں بجائیں تو احمد سوچ میں پڑ گیا۔

جب بابا جی نے اُسے سوچتے ہوئے دیکھا تو کہا:’’چلو! میں تمھیں ایک ترکیب بتاتا ہوں۔ اس ترکیب سے تمھاری نیکیاں مجھ سے زیادہ ہو سکتی ہیں۔‘‘

احمد کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ اُس نے دل ہی دل میں سوچا:’’یعنی باباجی کو اب بھی ہرایا جا سکتا ہے۔‘‘

یہ سوچ کر احمد نے بڑے ادب سے باباجی سے کہا:’’جی باباجی!ترکیب بتائیے!‘‘

بابا جی نے کہا:

’’اصل میں یہ ترکیب ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے بتائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ ہر مسلمان کو سلام کِیا کرو، چاہے تم اُسے جانتے ہو یا نہ جانتے ہو۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سلام کو پھیلانے سے محبت بڑھتی ہے۔ بھئی اب میں تو گھر جا رہا ہوں۔ آپ اسکول جارہے ہیں۔ ابھی آپ بازار سے گزریں گے۔ بازار میں جتنے لوگوں کو سلام کریں گے، آپ کو ثواب ہی ثواب ملتا جائے گا۔‘‘

*۔۔۔*

احمد یہ ترکیب سن کر خوش ہوگیا۔باباجی سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھا تو بازار پہنچنے سے پہلے ہی گھا س والے میدان میں قاری صاحب کہیں جاتے ہوئے نظر آگئے۔ قاری صاحب شام کو اُسے گھر پر عربی قاعدہ پڑھانے آتے تھے۔اُس نے وہیں سے آواز دے کر کہا:

’’قاری صاحب! السلام علیکم!‘‘

قاری صاحب نے مڑ کر دیکھا تو انھیں ننھامنا احمد نظر آیا۔قاری صاحب بہت خوش ہوئے۔ اُنھوں نے بھی وہیں سے ہاتھ ہلاتے ہوئے کہا:’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔‘‘

’’لوجی!‘‘۔۔۔ احمد نے اپنی ہتھیلی سے اپنا ماتھا پیٹا، بالکل دادی امّاں کی طرح۔ پھر دادی اماں ہی کے انداز میں بولا:’’لو!۔۔۔ یہ بھی مجھ سے جیت گئے۔ مجھ سے ڈبل ثواب کماگئے۔ اب میں ثواب کیا کماؤں گا؟خاک؟‘‘

اتنے میں دینو دودھ والابازار سے نکلتا ہوا دکھائی دیا۔ اپنی موٹر سائیکل پر دونوں طرف دودھ کے بڑے بڑے ڈبے لادے ہوئے اور اپنے ہونٹوں کے دونوں طرف مونچھوں کے موٹے موٹے گچھے پھیلائے ہوئے۔ دینو چاچا احمد ہی کے گھر کی طرف جا رہا تھا۔ احمد نے سوچا:’’میں دینوچاچا کو تو بالکل نہیں جیتنے دوں گا۔‘‘

جیسے ہی دینو چاچا کی موٹر سائیکل اچھلتی کودتی اُس کے پاس پہنچی احمد نے زور سے کہا:’’دینوچاچا۔۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔‘‘

دینو چاچا نے اپنے سارے دانت باہر نکال دیے:’’وعلیکم السلام!۔۔۔ جیتے رہو بیٹا، جیتے رہو!‘‘

احمد خوش ہو گیا:

’’چلو کسی سے تو جیتے۔‘‘

دینو چاچا سے جیت کر احمد بازار میں داخل ہوا تو دیکھا کہ’ کریم ہوٹل‘ کے آگے ایک بڑے میاں گرما گرم پوریاں تل رہے ہیں اور اُن کے ساتھ کھڑا لڑکا گھی میں ترتراتا ہوا حلوہ دیگچی سے نکال نکال کرگاہکوں کو دے رہا ہے۔ احمد نے باری باری دونوں سے کہا: ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

دونوں نے نظریں اُٹھا کر احمد کو دیکھا۔حلوہ پُوری لینے کے لیے جو دوچار گاہک کھڑے تھے اُنھوں نے بھی مڑ کر دیکھا۔ سب اتنے چھوٹے بچے کو اتنا بڑا سلام کرتے ہوئے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ کئی آوازیں آئیں:’’وعلیکم السلام ۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔ وعلیکم السلام۔‘‘ احمد بھی خوش ہو گیا۔

وہ سب سے جیتتا جارہا تھا۔اسی طرح اُس نے نور کریانہ اسٹور والے نُور ماما کو سلام کیا۔ماما نے مارے خوشی کے خوب لہک کر جواب دیا:’’وعلیکم السلا آ آ آم‘‘۔پھراحمد نے آگے جاکر ’’کتاب گھر‘‘ والے حامد انکل کو سلام کیا۔ پھر اخترفارمیسی والے اختر صاحب کو سلام کیا اورپھر چوڑیاں اور کھلونے بیچنے والی آنٹی کو سلام کیا، جواِس وقت شاید کوئی سودا لینے کے لیے بازار آئی ہوئی تھیں، کیوں کہ اُن کی دُکان تو ابھی بند تھی۔ آنٹی نے:’’جیتے رہو بیٹا!‘‘ کہا اور جھک کر احمد کے گال پر ایک چُمّا بھی جَڑ دیا۔ بازار سے نکلنے والے رستے کے آخر میں گُل مرجان خان اپنے لکڑی کے کیبن میں بیٹھا کسی کی چپلیں ٹانک رہا تھا۔ وہ اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ اُسے اِدھر اُدھر کی کچھ خبر ہی نہیں تھی۔ اُس کو احمد نے اتنے زور سے ا چانک سلام کیا کہ بچارا چونک کرتھوڑا سا کانپ ہی تو گیا۔احمد کو ہنسی آگئی۔وہ بھی احمد کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا:’’وعلیکم السلام بچے!‘‘

احمد اسی طرح سب کو سلام کرتا ہوا اسکول والی سڑک پر آگیا۔سڑک پر آکر اُس نے دیکھا کہ مسجد کے مولانا صاحب بالکل سامنے سے چلے آرہے ہیں۔ مولانا صاحب جمعے کی تقریر میں بہت اچھی اچھی باتیں بتاتے ہیں۔ ایک جمعے کو اُنھی کی تقریر سے احمد کو پتا چلا تھا کہ اللہ میاں ہر انسان کو ہر وقت دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی اپنے کمرے کے اندر، بستر کے لحاف میں خوب اچھی طرح گھس کر چھپا ہوا ہو تب بھی اللہ میاں اُس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی آدمی اللہ میاں سے چھپ کر کوئی کام نہیں کر سکتا۔اللہ میاں سے۔۔۔ کوئی بھی ۔۔۔ کوئی بھی ۔۔۔ بات چھپی ہوئی نہیں ہوتی۔ مولانا صاحب قریب آئے تو احمد نے زور سے کہا:’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

مولانا وہیں رُک گئے۔انہوں نے احمد سے ہاتھ ملایا، اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا ، اور جواب دیا:’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

پھر مولانا صاحب نے بھی جھک کر احمد کو پیار کیا اور کہا:

’’شاباش! سَلام اسی طرح کرتے ہیں۔‘‘

مولانا صاحب کی شاباش سے احمد کو بڑی خوشی ہوئی۔ آج پہلی بار اُس نے مولانا صاحب کو اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ آج پہلی بار اُن سے ہاتھ ملایا تھا اور آج ہی پہلی بار اُن سے شاباش بھی لے لی۔

’’واہ بھئی احمد صاحب وا ۔۔۔ شاباش بھئی احمد صاحب شاباش!‘‘

دل ہی دل میں اپنے آپ کو شاباش دیتے ہوئے احمداسکول میں داخل ہو گیا۔

*۔۔۔*

سارے بچے اسمبلی کے لیے جمع ہو چکے تھے۔ اسمبلی میں پرنسپل صاحب آئے تو سب لڑکوں نے مل کرایک آواز میں سلام کیا:’’ السلام علیکم‘‘

لیکن آج احمد نے صرف ’’السلام علیکم‘‘ نہیں کہا تھا۔ اُس نے کہا تھا:’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

سب لڑکے چپ ہو چکے تھے اور اکیلے احمد کی آوازگونج رہی تھی:’’۔۔۔ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

سَلامی کے چبوترے پر کھڑے ہوئے پرنسپل صاحب نے سُن بھی لیاتھا اور دیکھ بھی لیا تھا کہ یہ احمد کی آواز تھی۔

تلاوت اور نعت کے بعد، قومی ترانے سے پہلے پرنسپل صاحب کوئی نہ کوئی اچھی بات ضرور بتاتے ہیں۔ مگر آج انہوں نے کوئی اچھی بات بتانے کے بجاے احمد کو آواز دی:’’احمد ! آپ اوپر آئیے!‘‘

احمد ڈر گیا۔ اسمبلی میں وہ بالکل ٹھیک وقت پر آیا تھا۔ جس وقت تلاوت ہو رہی تھی اور جب نعت پڑھی جارہی تھی تو بیچ میں اُس نے کسی سے کوئی بات بھی نہیں کی تھی، خاموشی اور ادب سے سن رہا تھا۔پھر اس نے اپنی قمیص اور پتلون پر نظر ڈالی، اُس کا یونیفارم بھی بالکل صاف ستھرا تھا۔ اُس نے دل ہی دل میں کہا: ’’یا اللہ! مجھ سے کیا ہوگیا؟ پرنسپل صاحب نے صرف مجھے اوپر کیوں بلالیا؟ یا اللہ مجھے بچائیے!‘‘

وہ ڈرتے ڈرتے اوپر گیا۔ پرنسپل صاحب نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور کہا:’’میں ہر روز آپ لوگوں کو ایک نہ ایک اچھی بات بتاتا ہوں۔۔۔‘‘

سر یہ کہہ کر رُکے تو احمد نے سوچا کہ شاید سر کی بتائی ہوئی کسی اچھی بات کا اُس نے الٹا کر دیا ہے۔ اب سب کے سامنے سزا ملے گی۔ یہ سوچ کر وہ کانپ سا گیا۔پھر اُس نے سنا کہ پرنسپل صاحب کہہ رہے تھے:

’’۔۔۔ مگر آج مجھے ایک اچھی بات آپ کے ساتھی احمد نے یاد دلادی ہے۔بیٹے اِدھر مائک پر آئیے!‘‘

سر نے احمد کاہاتھ پکڑے پکڑے اُسے مائک کے قریب کیا اور پوچھا:’’احمد آج آپ نے کیسے سلام کیا ہے؟ اِدھر آئیے، یہاں اسی طرح سب کو سلام کر کے دکھائیے!‘‘

اب احمد کی جان میں جان آئی اور اُس نے بڑے جوش و خروش سے مائک پر کہا:’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘

پرنسپل صاحب نے ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہا۔پھر سب سے کہا کہ سب اسی طرح جواب دیں۔سب بچوں نے مل کر، ایک آواز میں، کہا: ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘

پرنسپل صاحب نے احمد کو شاباش دی۔ پیٹھ تھپتھپائی اور پھر اُس سے کہا: ’’جائیے!‘‘

احمد نیچے آیا تو اُس نے سنا کہ پرنسپل صاحب ٹھہر ٹھہر کر بتا رہے تھے:

’’ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلّم نے ہمیں سکھایا ہے کہ سلام کا جواب دیتے ہوئے۔۔۔ سلام کرنے والے کو۔۔۔ اُس کے سلام کے جواب میں۔۔۔ اُس کے سلام سے اچھا سلام کرنا چاہیے۔ اُس سے اچھا ممکن نہ ہوتو، بالکل اُس کے جیسا جواب دینا چاہیے ۔ مثلاً اگر کوئی ’’السلام علیکم ‘‘ کہتا ہے تو آپ کہیے ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ‘‘۔ یہ نہیں کہ’’ السلام علیکم‘‘ کے جواب میں بس ’’وعلیکم‘‘ کہا، اور چل دیے۔اگر کوئی آپ سے کہتا ہے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ تو جواب میں آپ کو کہنا چاہیے ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘۔اور اگر کوئی ’’ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ کہتا ہے تو اس کے جواب میں آپ کو بھی ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ ہی کہنا چاہیے۔ ایسا نہ کریں جیسا ایک ناواقف آدمی نے کیا تھا کہ ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ کے جواب میں ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ کہہ کرہاتھ باندھا اورسورہ فاتحہ کی تلاوت شروع کر دی۔‘‘

سر کی آخری بات سن کر سارے بچے ہنس پڑے۔ پرنسپل صاحب کی تقریرکے بعد قومی ترانہ ہوا۔ پھر دُعا پڑھی گئی ۔ ’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری‘۔ پھر سب بچے قطار بنائے، پرنسپل صاحب اور دوسرے استادوں کو سلامی دیتے ہوئے، اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔ کلاس میں بھی احمد کی وجہ سے آج سارا دن ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ کی آوازیں آتی رہیں۔

اب تو احمد کو بڑا مزہ آنے لگا۔ ہر روز گھر سے اسکول آتے ہوئے اور اسکول سے گھر جاتے ہوئے، راستے میں وہ سب کو سلام کرتا ،سب کے جواب کا انداز دیکھتا اورخوش ہوتا۔یقین کیجیے کہ احمد کو راستے میں جو بھی ملتا احمد اُس کو سلام کرتا۔اوریہ بات تو بھئی ہماری آنکھوں دیکھی بات ہے کہ احمد جس کو بھی سلام کرتا وہ احمد کو بڑی پیار بھری نظروں سے دیکھتا ہوا جاتا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ احمد سلام کرکے آگے بڑھ گیا، پھراُسے دُور پیچھے سے آنے والی آوازیں سنائی دیں:

’’ماشاء اللہ۔ کتنا تمیز دار بچہ ہے۔‘‘

’’بہت پیارا بچہ ہے۔‘‘

’’ اللہ اسے نظر بد سے بچاے۔‘‘

مگر احمد کو سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ وہ سب کو ،سب سے پہلے سلام کرتا ہے، اللہ میاں اس سے بہت خوش ہوں گے۔ اُس کی نیکیاں بڑھتی جائیں گی۔اور اس کو بہت سارا ثواب مل جائے گا۔باباجی سے بھی زیادہ!

*۔۔۔*

پھر ہوا یوں کہ بازار والوں کو کئی دنوں تک احمد نظر ہی نہیں آیا۔ بھئی ایک دو دن کا ناغہ ہوتا تو کوئی بات نہ تھی۔مگر جب احمد کو دیکھے بغیر کئی دن گزر گئے تو سب سے پہلے ’کریم ہوٹل‘ والے کریم چاچا کو احمد کا خیال آیا۔ کریم چاچا نے گرماگرم پوریاں اپنے کڑھاؤ میں اُلٹ پلٹ کرکے تلتے ہوئے، دیگچی سے حلوہ نکالنے والے لڑکے سے کہا:’’ارے۔۔۔ وہ بچہ کئی دنوں سے نظر نہیں آرہا ہے، جو بڑا لمباسا سلام کرتا ہوا جاتا ہے۔‘‘

حلوے والے لڑکے نے پوچھا:’’کون؟ وہ ؟ جو نیلے رنگ کا بستہ لے کرروز صبح صبح اسکول جا رہا ہوتا ہے؟‘‘

’’ہاں، ہاں وہی!‘‘

لڑکے نے کف گیر کا دستہ تھام کر کچھ دیر سوچا، پھر بولا:’’ہاں کریمو چاچا! سچ۔۔۔ وہ لڑکا توکئی دنوں سے نہیں آرہا ہے۔‘‘

ان دونوں کو یہ باتیں کرتے ہوئے ’نور کریانہ‘ والے نور ماما نے سن لیا۔وہ اپنی دُکان ہی پر بیٹھے بیٹھے بولے:

’’کریم بھائی! واقعی وہ بچہ تین چار دنوں سے نظر نہیں آرہا ہے۔ یار !ہم توروز انتظار کرتے ہیں اُس کا سلام سننے کے لیے کتنا پیارا طریقہ ہے اُس کا۔‘‘

’اختر فارمیسی‘ والے اختر صاحب بھی یہ باتیں سن کر اپنی فارمیسی سے باہر نکل آئے اور پوچھنے لگے:’’ارے ہاں بھئی اُس پیارے سے بچے کا نام کیا ہے؟ کہاں رہتا ہے وہ؟‘‘

کسی کو بھی احمد کا نام معلوم تھا نہ پتا۔ بس اتنا ہی معلوم تھا کہ ایک بہت ہی پیارا سا بچہ روزانہ بازار سے گزر کر اپنے اسکول جاتا ہے اور سب سے ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ کہتا ہوا جاتاہے۔مگر اب وہ لڑکا گیا کہاں؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں!

’کتاب گھر‘ والے حامد انکل بھی بولے:’’نور میاں! معلوم تو کرنا چاہیے کہ آخر وہ لڑکا گیا کہاں؟اتنی محبت سے ہر روز صبح صبح ہمیں سلام کرتاتھا، ہمارے لیے اللہ کی رحمتوں اور اُس کی برکتوں کی دعا کرتاتھا۔ارے میاں! اللہ معصوم بچوں کی دعائیں ضرور سنتا ہے۔ذرا پتا تو کرو آخر وہ لڑکاگیا کہاں؟‘‘

سب کی آوازیں سن کر’ ’بی بی بازار‘‘ والی آنٹی بھی اپنی چوڑیوں اور کھلونوں کی دکان سے باہر نکل آئیں:

’’حامد بھائی! میں بھی دل میں یہی سوچ رہی تھی کہ روزانہ کے کاموں میں سے کیا چیز کم ہو گئی ہے؟ وہ لڑکا تو ہماری ہر صبح کی دعاؤں کا حصہ بن گیا تھا۔ کئی دنوں سے نہیں آیا تو مجھے لگنے لگا ہے کہ کوئی چیز کم ہوگئی ہے۔ مگر کیا چیز کم ہوئی ہے؟ اس کا احساس تو آج ہوا۔ آخر وہ لڑکا گیا کہاں؟‘‘

’’کس سے پوچھیں؟‘‘اختر صاحب بولے۔

’’کون بتا سکتا ہے؟‘‘نورماما نے پوچھا۔

’’اسکول والے بتا سکتے ہیں۔‘‘ حلوے والے لڑکے نے کہا۔

’’لو ۔۔۔ نام تو اُس کا معلوم نہیں۔۔۔ اسکول والوں سے کیا معلوم کریں گے؟‘‘۔ کریمو چاچا نے حلوے والے لڑکے کو ڈانٹا۔

’’کسی نے گھر دیکھا ہے اُس کا؟‘‘آنٹی نے ایک ایک کرکے سب کی طرف دیکھا۔

’’گھر تو کیا، کسی کو نام بھی اُس بچے کانہیں معلوم۔ کسی سے گھر پوچھیں بھی تو کیسے پوچھیں؟‘‘

اختر صاحب ابھی یہ بات کہہ ہی رہے تھے کہ دینو چاچا کی موٹر سائیکل پھٹ پھٹ کرتی ہوئی ہوٹل کے پاس آن کھڑی ہوئی۔ نورماما کہہ رہے تھے:’’مجھے تو بڑی یاد آتی ہے اُس بچے کی۔ جب سلام کرتاہے تو جی چاہتاہے کہ دُکان سے باہر نکل کر اُسے گود میں اٹھا لوں۔‘‘

دینو چاچا نے یہ ساری باتیں سنیں تو جھٹ بول پڑے:’’ارے تم لوگ احمد کی بات تو نہیں کر رہے ہو؟‘‘

’’کیا اُس بچے کانام احمد ہے؟‘‘ اختر صاحب نے پوچھا!

’’وہی بچہ ناں، جو سب کو ’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘ کہتاہے؟۔۔۔ہاں احمد ہی ہے اس کا نام۔۔۔ احمد ۔۔۔احمد ۔۔۔ میں روزانہ اُس کے گھر دودھ پہنچاتا ہوں۔بہت اچھا لڑکا ہے۔‘‘

دینو چاچا نے بتایاتو سب چونک اُٹھے۔

’’ارے میاں تو بتاؤ نا کہ وہ اچھا لڑکاآخر گیا کہاں؟‘‘ اختر صاحب نے پوچھا!

’’دینو بھائی! وہ گُڈّے جیسا لڑکا گیا کہاں؟‘‘ نور ماما نے پوچھا!

’’ارے دینو میاں! بہت ہی معصوم بچہ ہے ، جلدی بتاؤ وہ گیا کہاں؟‘‘انکل حامد نے پوچھا!

’’ہاں ہاں! دینو بھائی بتاؤنا،وہ لڑکا گیا کہاں؟‘‘ آنٹی نے پوچھا!

’’میں تو صبح ہی سے پوچھ رہا ہوں کہ وہ لڑکا گیا کہاں؟‘‘ کریمو چاچا نے پوچھا!

’’دینو چاچا! تم اُس کے گھر دودھ پہنچاتے ہو، تمھیں ضرور پتا ہوگا کہ وہ لڑکا گیا کہاں؟‘‘ حلوے والے لڑکے نے پوچھا۔

اتنی دیر میں اتنے لوگوں کا جمگھٹادیکھ کر گل مرجان بھی اپنے کیبن سے باہر نکل آیا:’’یَرا، وہ بڑا آچّا باچّا اے۔ کِدر اے دِین محمد خان وہ باچّا؟اُس کا خیر خیریت بتاؤ‘‘۔

دینو چاچا نے صرف اتنا بتایا :’’خیر،خیریت نہیں ہے!‘‘

*۔۔۔*

آج اسپتال میں اُس کا چوتھا دِن تھا۔ ڈاکٹر، نرسیں، مریض اور مریضوں کے ملاقاتی، اِن چار دنوں میں سب اُس بچے کے دیوانے ہوگئے تھے۔ اُسے ہوش میں آئے آج تیسرا دِن تھا۔ ان تین دنوں میں بھی وہ جس کو دیکھتا ایک ہی بات کہتا:’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔‘‘

احمد نے ساتھ والے مریض کے ساتھ بیٹھی ہوئی جن خاتون کو سلام کیا تھا،وہ اُس کے پٹیوں سے بندھے ہوئے سر پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے رُک گئیں۔ پھر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرکر بولیں:’’وعلیکم السلام بیٹا، جیتے رہو، جلدی سے اچھے ہو جاؤ۔‘‘

’’بہن! کیسے چوٹ لگی تمھارے منے کو؟‘‘ خاتون نے پوچھا تو احمد کی امی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

’’کیا بتاؤں بہن؟ کچھ میری اپنی غلطی، کچھ قسمت کا لکھا۔ میں باورچی خانے میں کھڑی تھی۔ اوپر والی دو چھتی سے کچھ چیزیں اُتار رہی تھی۔ اس نے دیکھا تو کہا، امی ٹھیریں، میں اُتار دیتا ہوں۔ میں نے اسے منع نہیں کیا۔ یہ اوپر چڑھ گیا۔ چیزیں اُتار کر مجھے دیں۔ خود اُترنے لگا تو پھسل گیا اور سر کے بل فرش پر آرہا۔ اس کا سرپھٹ گیا۔ خون کی ایک دھا ر نکلی اور یہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کے ابو ایک کارخانے میں مزدوری کرتے ہیں۔ وہ اپنے کام پر گئے ہوئے تھے۔ میں گھر میں اکیلی تھی۔جلدی سے اپنا ایک دوپٹہ پھاڑ کر اس کے سرپر باندھا اور اس کو گود میں اُٹھا کر بھاگی۔ اتنے بڑے بچے کو گود میں اُٹھا کر بھاگنا، وہ بھی پریشانی سے بدحواس ہو کر۔۔۔ میرا تو سانس پھول گیا۔۔۔ گلی سے نکل کر سڑک پر آئی تھی کہ ایک گاڑی رُکی۔ گاڑی والے نے دیکھتے ہی کہا۔۔۔ ’ارے! یہ تو سلام کرنے والا بچہ ہے‘ ۔۔۔ اُس نے مجھ سے کہا کہ بہن گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ وہی رحمت کا فرشتہ اسے اسپتال لے آیا۔کچھ دیر وہ یہاں رُکا رہا۔ پھر ڈاکٹر سے کچھ کہہ سن کر چلا گیا۔اُس دن تو یہ بے ہوش ہی رہا۔ سب ڈاکٹر باری باری آکر اس کو دیکھتے تھے۔ کہتے تھے کہ بارہ گھنٹے کے اندر اندر ہوش میں آگیا تو بچ جائے گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُسی رات ہوش میں آگیا تھا۔ اُس وقت اِس کے ابو بھی آچکے تھے۔ وہ گھر پہنچے تو دیکھا کہ گھر کھلا ہے۔ ماں بیٹا دونوں گھر سے غائب۔ میرے موبائل پر فون کیا تو موبائل گھر ہی میں بج رہا تھا۔ اتنی پریشانی میں ہوش کسے تھا موبائل ساتھ لانے کا؟وہ تو محلے کی کسی بچی نے دیکھ لیا تھا کہ میں زخمی بچے کو لے کر بھاگی چلی جارہی ہوں۔اُسی نے اُن کو بتایا۔ وہ ڈھونڈتے ڈھانڈتے اسپتال آپہنچے۔ یہاں ہمارا تو کوئی رشتے دار بھی نہیں ہے۔‘‘

’’کوئی اور بال بچہ نہیں ہے۔‘‘ خاتون نے پوچھا تو احمد کی امی نے بتایا:’’نہیں۔۔۔ بس یہی ایک بیٹا ہے۔‘‘

’’اللہ اسے زندگی دے۔ تم فکر نہ کرو بہن۔ تم اکیلی نہیں ہو۔ ہم جو ہیں تمھارے ساتھ۔‘‘ خاتون نے احمد کی امی کو دلاسا دیا۔

’’ہم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ السلام علیکم بیٹا۔ لو یہ دوا پی لو ،شاباش!‘‘ ایک نرس نے آکر احمد کو سلام کیا اور دوائی چمچے میں اُنڈیلی۔

’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔‘‘ احمد نے چمچہ منھ میں لینے سے پہلے نرس آنٹی کو پورا جواب دیا۔ نرس کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

اتنے میں باہر سے کچھ شور شراباسنائی دیا۔ کچھ لڑائی جھگڑے کی آوازیں آنے لگیں۔ جنرل وارڈ کے سارے مریض ڈر گئے:’’اِلٰہی خیر! یہ کیا ہنگا مہ ہورہا ہے؟‘‘ کچھ مریضوں کے تیمار دار اُٹھ کر دوڑتے ہوئے باہرکو بھاگے۔

’’سیکورٹی گارڈ سے کچھ لوگوں کی لڑائی ہو رہی ہے۔‘‘ ایک لڑکی نے آکر اپنی امی کو اطلاع دی۔

’’کیوں لڑائی ہو رہی ہے؟‘‘ ایک مریض نے پوچھا تو اُسی وقت اندر داخل ہونے والی ایک عورت نے بتایا:’’بہن! سمجھو پورا جلوس دروازے پر کھڑا ہے جو اسپتال کے اندر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سیکورٹی گارڈ انھیں منع کر رہا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ تم اتنے سارے لوگ کہاں سے آگئے ہو؟ کیوں اندر جانا چاہتے ہو؟ کیا اسپتال پر حملہ کرنے آئے ہو؟‘‘

’’آخر کیوں آئے ہیں یہ لوگ؟‘‘ احمد کی امی بھی پریشان ہوگئیں۔اتنے میں ایک مریض کے ساتھ آئے ہوئے لڑکے نے وارڈ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آنکھوں دیکھا حال سنانا شروع کر دیا:

’’اسپتال کے سارے ڈاکٹر آگئے ہیں۔۔۔ بڑا ڈاکٹر بھی آگیا ہے۔۔۔ لوجی۔۔۔ ڈاکٹروں کے ساتھ وہ سب کے سب اندر آرہے ہیں…. بھاگو۔‘‘

احمد کی امی نے دیکھا کہ واقعی پورا جلوس تھا جو جنرل وارڈ میں گھسا چلا آرہا ہے۔ سفید ،سفید ایپرن پہنے ہوئے ڈاکٹربھی اور اسپتال کی نرسیں بھی اس جلوس میں شامل ہو گئی ہیں۔پھر یہ سارا جلوس احمد کے بستر کی طرف مارچ کرتا ہوا چلا آیا اورآواز سے آواز ملا کر ایک ساتھ بولا:’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ۔‘‘

احمد چونک گیا اُس نے لیٹے لیٹے کہا:’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ ۔‘‘ اور پھر یکایک اُٹھ کر اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔

پورا جلوس احمد ہی سے ملنے کے لیے آیا تھا۔آگے آگے دینوچاچا۔۔۔ دینو چاچا کے ہاتھ میں شیشے کی بوتلیں اور بوتلوں میں دودھ بھرا ہوا ۔ دینوچاچا کے پیچھے پیچھے کریموچاچا اور حلوے والا لڑکا۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں حلوے کے ڈبے تھے۔ نور کریانہ والے نور بھائی بسکٹوں اور ٹافیوں کے ڈبے لے کر آئے تھے۔ ’کتاب گھر‘ والے حامد انکل کے ہاتھوں میں مزے مزے کی کہانیوں کی کتابیں تھیں۔ اختر فارمیسی والے اختر صاحب جوس کے پیکٹ لائے تھے اوربڑے ڈاکٹر صاحب سے کہہ رہے تھے :

’’ڈاکٹر صاحب! اس بچے کے لیے جس دواکی بھی ضرورت ہو ۔۔۔اگر مہنگی سے مہنگی دوا کی بھی ضرورت ہو ۔۔۔ تو آپ بے جھجھک لکھ دیجیے ۔۔۔ دوائیں مَیں لا کر دوں گا۔‘‘

چوڑیوں اور کھلونوں کی دکان والی آنٹی نے آتے ہی احمد کو بڑا سا چُمّا دیا اور بہت سارے کھلونے اُس کے بستر پر ڈھیر کر دیے۔ گُل مرجان خان بھی احمد کے لیے چلغوزے، مونگ پھلی، گجک اور خشک خوبانیاں لے کر آیا تھاکہ’’دا ۔۔۔وَالہ ۔۔۔(یہ لو!)۔۔۔ یہ سارا تُم کائے گا احمد خان۔‘‘

اتنے ہی لوگوں پر بس نہیں۔ ابھی یہ لوگ جنرل وارڈ میں ہجوم لگائے کھڑے تھے کہ اتنے میں مولانا صاحب، قاری صاحب اور باباجی بھی وارڈ میں داخل ہو گئے۔ تینوں کے ہاتھوں میں پھلوں کی تھیلیاں تھیں۔ مولانا صاحب لوگوں کو بتانے لگے:’’میں کسی ضرورت سے بازار آیا تو دیکھا کہ تمام دکانیں بند ہیں۔ ارے حضرت! عام دنوں میں؟۔۔۔ اور وہ بھی شام کے وقت؟۔۔۔ ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا کہ تمام دکانیں ایک ساتھ بند ہوجائیں۔ ہڑتال کے دنوں میں بھی کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ محلے کے اندر کی دکانیں بھی سب کی سب بند ہو جائیں۔ خیر، ایک چوکیدار نے بتایا کہ سارے لوگ احمد کو دیکھنے اسپتال گئے ہیں اور سب نے اکٹھے ہی جانے کا فیصلہ کیا۔ احمد کون؟ میں ابھی پوچھ ہی رہا تھا کہ قاری صاحب آگئے۔ قاری صاحب نے بتایا کہ احمدوہی بچہ ہے جو سب کو ’پورا سلام ‘کرتاہے اور مسکرا کر دیکھتاہے۔ اتنے میں حاجی نور محمد صاحب بھی آگئے۔ (وہی حاجی صاحب جن کو احمد ’باباجی‘ کہتا تھا)۔ ہمیں چوکیدار سے یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ بچہ زخمی ہو گیا ہے اور اسپتال میں داخل ہے۔لہٰذا ہم تینوں بھی فوراً یہاں آگئے‘‘۔

اب مولانا صاحب، قاری صاحب اور حاجی نور محمد صاحب بھی احمد کے بستر کے قریب پہنچے۔ وہی۔۔۔ ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘۔۔۔ اور۔۔۔ ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ‘‘ کا مقابلہ۔۔۔ بلکہ میچ ہوا۔

باباجی نے کہا:’’احمد بیٹا۔۔۔ تم تو مجھ سے ہر طرح سے جیت گئے۔ دیکھو! کتنے لوگوں کے دلوں میں اللہ نے تمھاری محبت ڈال دی ہے۔ یہ ساری محبت صرف اور صرف سَلام کی محبت ہے۔‘‘

اس کے بعد مولانا صاحب نے احمد کے لیے اور اسپتال میں موجودباقی سب مریضوں کی جلد صحت یابی کے لیے عربی اور اُردو میں بہت دیر تک دُعائیں کیں۔ سب لوگوں نے آمین کہا۔

جب یہ سب لوگ واپس جانے لگے تو ساتھ والے مریض کے ساتھ والی خاتون نے کہا:’’بہن! تم تو کہہ رہی تھیں کہ ۔۔۔یہاں ہمارا تو کوئی رشتے دار بھی نہیں ہے۔۔۔ اتنے لوگ کہاں سے آگئے؟‘‘

’’مجھے تو معلوم بھی نہیں تھا بہن، کہ اتنے لوگ۔۔۔ اور اتنے بڑے بڑے لوگ ۔۔۔ میرے بچے سے اتنی محبت کرتے ہیں۔ بہن! یہ سب ’سلام کے رشتے دار‘ ہیں۔ حاجی صاحب نے سچ کہا ہے۔۔۔ یہ ساری محبت صرف اور صرف سلام کی محبت ہے۔‘‘

حلوے والا لڑکادروازے سے نکل رہا تھا کہ اُس نے ایک ڈاکٹر کو کہتے سنا:’’حیرت ہے۔ اتنے سارے لوگ اتنے سارے تحفے تحائف لے کر اس بچے کو دیکھنے کے لیے، صرف اس وجہ سے آئے ہیں کہ یہ بچہ ان کو روزانہ سلام کرتا تھا؟‘‘

یہ سن کرحلوے والے لڑکے سے چپ نہ رہا گیا۔ جاتے جاتے کہنے لگا:’’ابھی تم نے دیکھا کیا ہے ڈاکٹر صاحب؟ کل جب میں اس کے اسکول میں جاکر بتاؤں گا پھر دیکھنا ۔۔۔سلام کی محبت!۔۔۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔‘‘

*۔۔۔*

اس تحریر کے مشکل الفاظ

کف گیر: بڑا چمچہ

ایپرن: وہ کپڑا جو کام کرتے وقت لباس کی حفاظت کے لیے آگے باندھا جاتا ہے

مارچ کرنا: پیدل چلتے ہوئے، پیدل چل

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top