skip to Main Content

اخبار

قاسم بن نظر

………………

اخبار ہمارے زہریلی گیسوں سے اٹے ہوئے معاشرے کی ایسی اکائی ہے جس کا تعلق آلودہ ماحول میں سانس لینے والے ہر فرد کی زندگی سے انگوٹھی میں نگینے اور پٹی فٹنگ میں ٹیوب لائٹ اور سائیکل میں پہیے کی طرح جڑا ہوا ہے۔ اخبار طبقاتی فرق سے بالائے طاق ہوکر ہر چھوٹے بڑے کی پہنچ میں نظر آتا ہے۔ حجام کا مکان ہو یا کوئی کتب خانہ بسوں کی مڈ بھیڑ ہو یا اہل قلم ودانش کی محافل۔ اخبار کشت زعفران کی طرح اپنی خوشبو اور عید میں سلوائے گئے کرتے کی طرح اپنا دامن مشرق تا مغرب پھیلاتا نظر آتا ہے۔
اخبار کی ایک خصوصیت یعنی علوم کے خزینہ سے تو سب ہی واقف ہوں گے لیکن اخبار کی وجہ سے کچھ کاہل الوجود (جن میں ہمارا شمار بھی ہوتا ہے) حضرات صبح ہی صبح ٹھنڈی مست ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے نظر آسکتے ہیں۔ جیسے کہ اگر ہم اخبار کی تشریف آوری سے پہلے مطلق بیدار نہ ہوئے تو اخبار کے صفحات دڑبے سے آزاد ہونے والی مرغیوں کی طرح اُڑاُڑ کر پڑوسیوں کے گھروں میں جاپہنچتے ہیں۔ اور جب ہم خواب خرگوش کے مزے لے کر اٹھتے ہیں تو اخبار کا ایک آدھ صفحہ گھر کے آنگن میں پڑا دیکھ کر یہ قیاس کرتے ہیں کہ شاید پورا اخبار نہیں چھپا۔ وہ تو شام کو محلے والے اخبار کی خبروں پر اظہار رائے، تبصرہ، بحث ومباحثہ، نظرثانی، تذکیرو تانیث، گفت وشنید، اور حقائق وغیرہ جان لینے کے بعد ہمیں ہمارا اخبار واپس کرتے ہیں کہ حضرت ہم تو دنیا جہاں کی خبروں سے علم کے قطرے نچوڑ کر اپنا دامن تر کرچکے ہیں۔ بس آپ کی نظر کرم اس اخبار پر ثبت ہونا باقی رہ گئی ہے اگر آپ اس پر کچھ روشنی ڈالیں تو عین نوازش ہوگی۔
اخبار صبح ہی صبح ورزش کا سامان بھی بنتا ہے اور آپ کو ورزش کی طرف روبہ مائل کرنے کے لئے تیار نظر آتا ہے۔ اگر آپ چہل قدمی کے عادی بن کر چست وتوانا ہونا چاہتے ہیں تو اخبار خریدنے کی عادت کو اپنا دستور بنا لیجئے۔ بلکہ دودھ والے کی بھی چھٹی کر دیجئے کہ صبح ہی صبح خود دودھ لینے جائیں گے تاکہ پیدل چل کر صحت اچھی رہے۔ ایک روز ہم نے اپنے پڑوسی کو موٹر سائیکل پر صبح ہی صبح بنیان اور شلوار میں ملبوس کہیں جاتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا کہ’’ کیا آج اسی حلئے میں آفس جانے کا ارادہ ہے۔‘‘ تو حیران ہوکر ہم سے کہنے لگے کہ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ صبح ہی صبح اخبار اور دودھ خریدنے کیلئے جایا کرو تاکہ صحت اچھی رہے‘‘ لیجئے اخبار خریدنے کے لیے پیٹرول ضائع کرنا کہاں کا انصاف ہے۔ 
اخبار ناشتے کا بھی لازمی جزو ہے۔ مطلب یہ نہیں کہ ڈبل روٹی کی جگہ اخبار چائے میں ڈبو کر کھایا جائے۔ مگر اخبار چاٹنے کے شوقین لوگ ناشتے پر دھیان کم دیتے ہیں اور اخبار پر زیادہ۔ ناشتہ تو دوبارہ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک گھریلو عورت کا نظریہ بھی اس معاملے میں لاجواب ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ اخبار اس کی سوکن ہے۔ اب بتائیے۔ اخبار جیسی شریف النفس چیز کے ساتھ یہ زیادتی نہیں تو اور کیا ہے۔
اخبار کو مندرجہ ذیل گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک روپے والا اخبار، دو روپے والا اخبار، تین روپے والا اخبار، پانچ، سات اور نو روپے والا اخبار، ویسے تو انگلش اخبارات بھی چھپتے ہیں جن کی وجہ سے بہت سے حضرات بغل میں انگلش اخبار دبا کر سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پوری انگلش کو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے۔ انگلش اخبار اور اردو اخبار میں فرق یہ بھی نمایاں نظر آتا ہے کہ انگلش اخبار کے شروع ہونے اور ختم ہونے کا پتہ نہیں چلتا۔ اور اردو اخبار شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔
اخبار سے کئی قسم کے کام لیے جاسکتے ہیں۔ جب تک یہ نیا رہتا ہے۔ اسے کھانے کے اوپر رکھ کر پڑھا جاتا ہے اور جب یہ پرانا ہوجاتا ہے۔ تو اس سے دستر خوان کا کام لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ میز پوش، کاپیوں کے کور وغیرہ کے طور پر بھی استعمال میں لائے جاسکتے ہیں اور کفایت شعاری کا منہ بولتا ثبوت مہیا کرسکتے ہیں۔ اور کچھ نہیں تو ردی میں جاکر آپ کو کچھ رقم بھی لوٹا سکتے ہیں یعنی قدم قدم پر اخبار آپ کو مختلف انداز میں اپنے کمالات سے جلوہ افروز ہوتا نظر آئے گا لیکن مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی نظر میں اخبار کیا حیثیت رکھتا ہے اس کا جائزہ ہم درج ذیل بیانات سے لے سکتے ہیں۔
سیاستدان:
اخبار ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہمارا سیدھا عکس بھی الٹا نظر آتا ہے۔ اخبار چونکہ سچ پر اعتبار کرتا ہے اسی لئے ہمارے دعوے چھا پتا ہے اور اگر ہم بے بنیاد اور جھوٹے دعوے کریں تو اخبار ہماری باتیں کیوں چھاپے۔
کھلاڑی:
اخبار نہ ہوتا تو ہمیں کیسے پتہ چلتا کہ ہم نے کیا کھیلا۔ (جب ہم نے استفسار کیا کہ کیا گراؤنڈ میں رہ کر آپ کو اپنے کھیل کا اندازہ نہیں ہوتا تو انہوں نے ڈھٹائی سے ہنس کر جواب دیا کہ اگر ہمیں اندازہ ہوجائے کہ ہم کیا کھیل رہے ہیں تو کمنٹری کا مقصد فوت نہ ہوجائے)۔
ماہر تعلیم:
اخبار سے مجھے یہی شکایت ہے کہ ایک ہی خبر کئی عشرے سے چھپ رہی ہے کہ فلاں اسکول میں بچے نہ تھے اس کے اساتذہ کی غیر حاضری پر انہیں معطل کردیا گیا۔
سائنسدان:
پہلے مجھے شکایت تھی کہ سائنسدانوں کو کسی صفحے پر جگہ نہیں ملتی اور انہیں اسی طرح کھلاڑیوں اور فنکاروں کے مقابلے میں ڈی گریڈ کیا جاتا ہے لیکن اب جس طرح پہلے ہی صفحے پر ہمیں پذیرائی ملی اس کا ہم جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے۔
بچے:
ہماری شکایت یہ ہے کہ ہمارے صفحے پر ایڈیٹر انکل اپنی ہی کہانیاں چھاپتے ہیں۔ ہماری نہیں۔
شاعر:
ناول پورے پورے صفحے پر اور غزل اور قطعہ چار لائنوں میں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے۔
صنعت کار:
یہ اخبار والے جس کی صنعتیں اور فیکٹریاں دکھاتے ہیں حکومت انہیں باہر کیوں بھیج دیتی ہے۔
تین مرد:
ہماری کہانیاں خواتین کے صفحے پر کیوں چھاپی جاتی ہیں۔
مزاح نگار:
ہمارے لطیفوں پر لوگ ہنستے کیوں نہیں۔
گھریلو خاتون:
ہر ہفتے ایک ہی طرح کی ڈش کیوں بنانا سکھائی جاتی ہے۔
پولیس:
اخبار والوں نے ہمارا کوئی کارنامہ آج تک کیوں نہیں چھاپا۔
ہاکر:
اخبار اتنی صبح صبح چھاپ دیتے ہیں کہ بس۔
*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top