skip to Main Content
’’احمق‘‘

’’احمق‘‘

زینب قائم خانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج انہیں احساس ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے بچے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’شہیر تم یہ احمقانہ حرکتیں کرنا چھوڑ بھی دو۔ ہر مانگنے والے کو سڑک پر پیسے مت بانٹتے ہوئے چلا کرو۔‘‘ شہیر کی امی نے بازار میں اپنے سے پیچھے چلتے ہوئے 12سالہ شہیر کو دھکے دے کر آگے کرتے ہوئے کہا۔ جب اس نے ایک پھٹے پرانے کپڑوں والے بچے کو دو روپے اپنی خرچی کے دے ڈالے تھے۔ وہ کچھ بولا تو نہیں البتہ اس کے چہرے پر اپنی حرکت کے احمقانہ ہونے کے انکشاف نے شرمندی کے گہرے سائے چھوڑ دیئے تھے۔ مگر اسے اسلامیات کے سر کی وہ بات یاد آگئی کہ اللہ کے نام پر مانگنے والے کو خالی ہاتھ نہ بھیجا کریں۔ اگر آپ دو روٹی کھا رہے ہیں۔ تو ایک اس سوالی کو دے سکتے ہیں۔ ہمارے صحابہ کرامؓ کا یہی عمل تھا۔ 
خیر اس طرح کی باتیں سوچتا ہوا جب وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ آپی کمپیوٹر کے سامنے بیٹھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ ان کے پاس گیا۔ اور پوچھنے لگا کہ آپی آپ کیا کر رہی ہیں۔ 
’’انٹرنیٹ پر کام کر رہی ہوں۔ دیکھ نہیں رہے احمق کہیں کے‘‘ آپی نے کمپیوٹر کی اسکرین پر ہی نظریں جمائے ہوئے اسے جواب دے دیا۔
’’آپی آپ مجھے بھی انٹرنیٹ سکھائیں ناں‘‘ وہ کہنے لگا۔
’’افوہ بھئی میرا دماغ مت کھاؤ۔ امی اسے بلائیں یہاں سے‘‘ بہن نے زور دار آواز لگائی اور شہیر دل پر ڈھیروں بوجھ لیے سر جھکائے کمرے سے نکل گیا۔
یہ اس کے گھر والوں کا معمول کا رویہ تھا۔ گھر میں یہ سب سے چھوٹا تھا۔ بڑے بہن بھائی بلا جھجک اس کے سوالوں پر اسے احمق کا لقب دے دیتے تھے۔ گھر میں ہر وقت احمق، پاگل، بیوقوف کی صدائیں گونجتی رہتیں۔ اب تو شہیر کو یقین ہوگیا تھا کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا احمق ہے۔ کوئی مہمان آتا تو یہ اسٹور میں چھپ جاتا تھا۔ اور کسی سے بات کرتے ہوئے بھی گھبراتا تھا۔
اسکول میں بھی وہ خاموش ہی رہتا تھا۔ اسے احساس تھا کہ وہ واقعی بہت بڑا احمق ہے۔ دوسرے دن بڑے بھائی پیر پٹختے ہوئے گھر میں چلاتے ہوئے آئے۔ ’’امی سمجھائیں اس بے وقوف کو کہ یہ ہر کسی کو گھر میں نہ گھسا لیا کرے۔‘‘ ’’کیا کردیا اس نے؟‘‘
امی نے بے زاری سے پوچھا۔ 
’’امی پتہ نہیں یہ کس کو اندر بٹھا کر پانی پلا رہا تھا۔ اور جناب صاحب گپ شپ بھی لڑا رہے تھے۔‘‘
اتنے میں پیچھے سے شہیر آگیا۔ امی نے آنکھیں نکالتے ہوئے اس سے پوچھا ’’بیٹا تم کیوں ایسی حرکتیں کرتے ہو۔ تم پاگل تو نہیں ہوگئے ہو؟ اگر کوئی چور ڈاکو وغیرہ ہوتا وہ تو کیا کرلیتے، آئندہ کس کو اندر مت گھسانا بیٹے۔ چاہے وہ کچھ بھی مانگے۔‘‘
اور شہیر نے اب اپنی صفائی میں بھی اب کچھ نہ کہا خاموشی سے وہاں سے چلا آیا۔ اور سوچنے لگا کہ کسی غریب بوڑھے آدمی کو جو گرمی اور پیاس سے ہانپ رہا ہے۔ سائے میں بٹھا کر پانی پلا دینا کوئی بے وقوفی تو نہیں ہے۔ آخر میں نے اسے پانی ہی پلایا تھا ناں۔ وہ تو اتنا بوڑھا تھا کہ کانپ رہا تھا۔ مگر ایسی الجھنوں کا جواب دینے والے اسے کوئی نہ تھے۔ اور اپنے پاس نیکی کرنے کے شوق کے پیچھے اسے روزانہ ایسی ہی صلوٰتیں سننا پڑتی تھیں۔
آٹھویں جماعت کا رزلٹ جب اناؤنس ہوا تو شہیر کو یہ سن کر یقین نہ آیا کہ وہ پورے اسکول میں فرسٹ آیا ہے۔ اسکول کی سالانہ تقریب تقسیم اسناد میں اسے انعامی شیلڈ ملنے والی تھی۔ چنانچہ سب گھر والے آج اس کے فائنل پروگرام میں جانے کے لیے تیار تھے۔ سب ہی بہت خوش تھے۔ امی تو بار بار اس کا ماتھا چومتی تھیں۔ تقریب کے اختتام پر جب پوزیشن ہولڈر بچوں کو انعامات دینے کا وقت آیا تو اسٹیج پر سارے اساتذہ، پرنسپل اور مہمان خصوصی صوبائی وزیر تعلیم کے علاوہ اور بھی بہت سے معزز مہمان براجمان تھے۔ ان کے سامنے سلیقے سے چائے اور دیگر لوازمات دھرے تھے۔ ویٹرز بھی صاف سفید لباس میں اپنے کام میں مصروف تھے۔ 
سب سے آخر میں جب پورے اسکول میں فرسٹ آنے والے بچے شہیر احمد خان کا نام پکارا گیا تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ شہیر کے تو اس وقت قدم ہی زمین پر نہ پڑتے تھے۔ مہمان خصوصی نے اسے انعامی شیلڈ دینے کے لئے اس کی طرف بڑھائی۔ عین اسی وقت ایک ویٹر کے ہاتھ سے چائے کی پیالی جو چھلکی تو ایک معزز مہمان کے سفید سوٹ کے کپڑے رنگ گئی۔ مہمان غصے سے زور سے چلایا۔ 
’’احمق کہیں کے۔‘‘ 
یہ کہنا تھا کہ ادھر شیلڈ لیتے ہوئے شہیر کے ہاتھ سے شیشے کی ٹرافی دھڑام سے نیچے گر گئی۔ مہمان خصوصی حیران ہوکر اسے دیکھنے لگے۔ جب کہ شہیر کی خوفزدہ نگاہیں اس وقت ہال میں موجود اس شخص کو ڈھونڈ رہی تھیں جس نے اسے ’’احمق کہیں کا‘‘ کہا تھا۔ اس کی پیشانی پر بے تحاشہ پسینہ تھا۔ سارے ہال پر سکتہ طاری تھا۔
جب کہ شہیر کی امی اور اس کے بڑے بھائیوں پر اس وقت شرمندگی کے باعث ڈھیروں پانی آگرا تھا۔ اور ان کے سر جھکے ہوئے تھے۔ آج انہیں احساس ہوا تھا کہ انہوں نے اپنے بچے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی کسر ہی نہیں چھوڑی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top