skip to Main Content

اب خیر نہیں۔۔۔!

محمدعلی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’کشن بیٹا! اتنی رات گئے تک پڑھو گے تو صحت بگڑ جائے گی ،اب سوجاؤ۔‘‘
’’جی پتاجی!میں کچھ سمے بعد سونے ہی والا تھا۔‘‘
’’بیٹا!مجھے یقین ہے کہ تمھارا خواب ضرور پورا ہوجائے گا اور تم اپنی منزل پالو گے۔ویسے بھی تم ناکام کیسے ہوسکتے ہو جب کہ میرا آشرواد(دعائیں) تمہارے ساتھ ہے۔‘‘کشن کے والد نے اس کی کمر پر تھپکی دیتے ہوئے کہا
ایک انتہائی محنت کرنے والا ہونہار لڑکا ہونے کی وجہ سے کشن والدین کی آنکھوں کا تارا تھا۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔ کشن نے آج تک اپنے والدین کو کبھی اپنی منزل کے متعلق نہیں بتایا تھا ۔ مگر اس کے والدین کو پورا یقین تھا کہ ان کا بیٹا اپنی منزل ضرور پالے گا اور کسی اچھے شعبے میں بڑے عہدے پر فائز ہو گا۔
’’بیٹا! تم مجھے کیوں نہیں بتاتے کہ تمھیں آگے کون سی فیلڈ جوائن کرنی ہے۔‘‘ کشن کے والد نے ایک دن پوچھ ہی ڈالا۔
’’پتاجی!میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ مجھ سے اس متعلق مت پوچھا کریں۔ ویسے بھی یہ میرا آخری سال ہے جہاںآپ نے اتنے لمحے بتائے(گزارے) وہاں کچھ دیر اور انتظار کر لیجیے۔‘‘
’’ٹھیک ہے بیٹا جیسے تمھاری مرضی۔۔۔۔۔‘‘

*****

آخر وہ دن بھی آگیا جب کشن کو اس کی راتوں کی محنت کا صلہ ملنا تھا۔ ایسا ہی ہوا اس نے اپنی محنت کی وجہ سے بہترین پوزیشن پائی تھی اس کے والدین دعائیں دے دے کر تھک گئے ۔
کچھ دن گزارنے پر اس کے والد نے اسے بلایا۔
’’جی پتاجی! آپ نے مجھے بلایا کیا بات ہے؟‘‘
’’دراصل میں تم سے کچھ کہنا چاہتاہوں۔‘‘کشن کے والد نے کشن کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے ساتھ بٹھالیا۔
’’بیٹا! تم نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے تمھارے کہنے کے مطابق اب میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم کونسی فیلڈ میں جانا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں نے یہ بات آج تک آپ سے اس لیے چھپائی تھی کہ میں آپ کو
سرپرائز دینا چاہتا تھا آج میں آپ کو یہ سرپرائز سب کے سامنے دوں گا۔‘‘
’’سب سامنے!!!اور کس کو بلانا چاہتے ہو؟‘‘
’’ماں کو !اور کس کو بلاؤں گا؟‘‘کشن نے حیرت سے کہا اور ماں کو آوازدی۔ ماں کے آنے پر کشن نے اپنی بات کہی۔
’’میں نے آرمی کا شعبہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘ کشن نے ایک دم سے کہہ دیا۔
کشن کے والدین ششدررہ گئے جیسے ان کے بیٹے نے کوئی انہونی بات کہہ دی ہو۔ان کے چہرے سے مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی تھوڑی دیر کے لیے مکمل سناٹا چھا گیا ۔کشن بھی حیرت سے اپنے ماں باپ کے منہ کو تکنے لگا۔
’’نہیں بیٹا!میں تم کوآرمی میں جانے نہیں دوں گا۔‘‘کشن کے والد نے سکوت توڑا۔
’’مگر کیوں؟آرمی کا نام سن کر آپ تو یوں ڈر گئے ہیں جیسے میں نے آپ سے خود کشی کرنے کا کہا ہو۔‘‘
’’نہیں بیٹا!یوں نہیں کہتے، بھگوان تمھاری رکھشا کرے(حفاظت کرے) ‘‘کشن کی ماں پہلی بار بولی۔
’’بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو تم ہماری اکلوتی اولاد ہو اور بڑھاپے کا واحد سہارا بھی۔ ہماری فوج کا مقابلہ اکثر پاکستانی فوج سے رہتا ہے تم بہتر طور پر جانتے ہو کہ ہماری فوج کو ہر سہولت مہیا ہونے کے باوجود کن مسائل کا شکار رہتا پڑتا ہے۔بھگوان نہ کرے تمھیں کچھ ہوگیا تو ہم دونوں تو جیتے جی مر جائیں گے۔‘‘
’’کیا؟یہ آپ کہہ رہے ہیں جنہوں نے ہمیشہ مجھے بہادری کا سبق دیا ہے۔۔۔۔ بس!!! میں نے اسی فیلڈ میں جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے اگر تمھارایہی فیصلہ ہے تو میں تم کوکبھی نہیں روکوں گا مگر میں تم سے صرف اتنا کہوں گا کہ تم جان بوجھ کر کنویں میں گر رہے ہو۔‘‘
’’آپ اسے کچھ بھی نام دیں مگر میرا خواب ہمیشہ آرمی آفیسر بننے کا تھا میں بہادری کا ایسا معرکہ ماروں گا کہ آپ کا سر فخر سے بلند ہو جائے گا اور آپ کا میرے آرمی میں جانے کا پچھتاوا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔‘‘ کشن نے اپنے والد کو مکمل طور پر مطمئن کرنا چاہا۔

*****

’’ارے کشن!سناہے فوج میں بھرتی ہونے لگا ہے تو‘‘ کشن کے دوست
رام لال نے کشن سے پوچھا
’’کیوں !تجھے کیا ضرورت پڑی پوچھنے کی۔‘‘
’’یار تو جانتا ہے کہ ہماری آرمی کاکیا حال ہے اور پھر مقابلہ بھی پاکستانیوں سے ہی ہوتا ہے وہ ایک ایک ہمارے دس پر حاوی ہوجاتے ہیں اور تیرے نمبر تو بہترین بلکہ بہت بہترین ہیں تو کوئی اور شعبہ کیوں نہیں اپناتا، فوج میں کیا رکھا ہے۔‘‘رام لال نے مشورہ دیتے ہوئے کہا
’’اوئے رام لال! میں آرمی میں ہی جاؤں گا تو دیکھ بھگوان نے موقع دیا تو میں کرتا کیا ہوں۔ بھگوان نے چاہا تومیں انڈیا کی تاریخ بدل ڈالوں گا۔‘‘
آخر آرمی کی سخت تربیت حاصل کرنے کے بعد اس نے کمیشن حاصل کر لیا اور اپنی منزل کی جانب بڑھنے لگا پھر اس کی پوسٹنگ کشمیر میں ہوگئی۔
جوان خون ہمیشہ پرجوش اور جذبات سے بھرپور ہوتا ہے ۔بس یہی وجہ تھی کہ کشن اپنے ملک کے لیے کچھ خاص کرنے کا جذبہ رکھتا تھا۔ ایک انڈین آفیسر ہونے کی وجہ سے اس کا دل مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھرپور تھا۔
اب تقربیاً روز اسے مسلمانوں کی کسی نہ کسی بستی کے لیے حکم مل جاتا وہ اپنے ساتھیوں سمیت متعلقہ بستی میں پہنچ جاتا ،مسلمانوں کے گھروں کی چیزیں توڑ دی جاتیں مردوں کوبے وجہ پیٹا جاتا حتی کہ بچے بھی ان کے ظلم کی چکی میں پیسے جاتے،گھروں کو آگ بھی لگادی جاتی۔ اس کے بدلے کشن کو خوب داد ملتی اور بعض اوقات اسے انعام سے بھی نوازا جاتا۔
کشن کو اس کی صلاحیتوں کی وجہ سے خصوصی تربیت دے کر تخریب کاری کرنے کے لیے پاکستان بھیج دیا گیا۔ اس نے خفیہ تنظمیوں کے ساتھ روابط قائم کیے۔
اس نے مساجد میں بم دھماکے کیے، بازاروں میں گولیاں چلوائیں ان واقعات میں بہت سے مسلمان شہید بھی ہوئے او ربہت سے زخمی بھی کشن ان تمام واقعات سے اپنے آفیسرز کو آگاہ کرتا رہا۔آخر کشن نے پاکستان کے خفیہ راز جاننے کی کوشش کی مگر اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود وہ کچھ نہ کرسکا بلکہ الٹا وہ پاکستان آرمی کی نظر میں آگیا اب اس کے پاس واپس بھاگ جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور آخر اسے ایسا ہی کرنا پڑا چھپتا چھپاتا آخر وہ اپنے ملک واپس پہنچا اسے اپنی شکست کا بہت پچھتاوا تھا۔

*****

 

’’ٹررن۔۔۔ٹررن۔۔۔ہیلو سر‘‘
’’ویلکم بیک! تمہیں اطلاع دینی تھی کہ تمھاری پوسٹنگ بارڈر پر کر دی گئی ہے تم فوراً اپنا چارج سنبھال کر اطلاع دو۔‘‘
’’او کے سر‘‘
کشن نے حکم ملتے ہی سامان باندھا اور بارڈر پر پہنچنے میں ذرہ بھر تاخیر نہ کی۔
کشن کو بارڈر پر آئے دوسرا دن تھا کہ اس کے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی یہ کشن کے آفیسر کا فون تھا۔
’’آج رات کیمپ مین فائیو میں اہم میٹنگ ہے پورے نو بجے پہنچ جانا۔‘‘
رات تو بجے کشن مطلوبہ کیمپ میں پہنچ گیا کچھ لمحات بعد آفیسر چندر جو میٹنگ آپریڑ تھا گویا ہوا’’ میرے ساتھیو! آپ سب بارڈر پر موجود ہیں خوف اور ڈر نکال پھینکو ہم ہندوستان کی تاریخ بدلنے کے لیے آج کے دن اکٹھے ہوئے ہیں۔ہم یہ مقصد لے کر بارڈر پر پہنچے ہیں کہ جتنا جلدی ہوسکے بھارت اور پاکستان ایک کردو ہم ایک وسیع خطے پر راج کریں گے۔ بہادری کی ایسی مثالیں قائم کرنا کہ آنے والی نسلیں تم پر ناز کریں۔ کسی کو اعتراض ہو تو بتائے۔‘‘
’’نو اوبجیکشن‘‘
’’پھر سب اپنی پوزیشنوں پر جاسکتے ہیں۔‘‘

*****

’’ٹررن۔۔۔۔۔ٹررن۔۔۔۔۔ہیلو سر‘‘
’’ کیپٹن کشن رات کی تاریکی میں اپنی فوج کے ہمراہ پاکستانی چوکیوں پر قبضہ کرنا شروع کر دو۔‘‘
’’مگر سر رات کے اندھیرے میں ہی کیوں ہم بزدل تھوڑی ہیں جو رات کے اندھیرے کا سہارا لیں؟‘‘
’’کشن! بعض اوقات دشمن کو ختم کرنے کے لیے غلط راستہ بھی اپنانا پڑتا ہے۔
ویسے بھی اس آپریشن کے متعلق سب افسران کو بتایا جاچکا ہے۔‘‘
’’او کے سر‘‘
اس کے بعد ضروری ہدایات لے کر وہ آنے والے دنوں کے لیے حملے کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا۔
حملہ رات کے وقت کرنا تھا اور رات ہونے میں کافی وقت پڑا تھا۔ حملے کی تیاریاں مکمل تھیں لہذا کشن نے تسلی سے رات کو کھانا اپنی فوج کے ساتھ مل کر کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد کشن نے اپنی فوج سے خطاب کیا۔
’’ساتھیو! ہمیں آج رات کو پاکستان پر حملہ کرنا ہے اور یہ حملہ ہم حکم ملتے ہی کر دیں گے بھگوان کی کرپا (فضل وکرم) سے ہم صبح کا ناشتہ پاکستان میں جا کر ہی کھائیں گے اب سب تیار رہیں ہمیں بہادری کا وہ معرکہ مارنا ہے کہ مسلمان دیکھتے رہ جائیں۔‘‘
یہ سب کہنے کے بعد کشن اپنے آفس میں آکر بیٹھ گیا اسے انتظار تھا کب اسے حملہ کرنے کا حکم ملے اور وہ اپنی فوج کے ساتھ حملہ کرے۔
’’ٹررن۔۔۔ٹرررر۔۔۔‘‘ دوسری گھنٹی پوری ہونے نہ پائی تھی کہ کشن نے رسیور اُٹھالیا۔
’’کشن حملے کی تیاریاں مکمل ہیں۔‘‘
’’یس سر!‘‘
’’ٹھیک ہے تم اپنے یونٹ کو لے کر کیمپ بی(B) میں پہنچو۔‘‘
کشن اپنی یونٹ کے ہمراہ پہنچا تو وہاں بریگیڈئیر صاحب خطاب کر رہے تھے۔
’’نوجوانوں صبر کی حد ہو چکی ہے اب ہم مزید شکست برداشت نہیں کرسکتے ۔
ہماری فوج بھی زیادہ ہے اور اسلحہ بھی بہت ہے اتنے دنوں سے یہ مسلمان فوج مزاحمت کر رہی ہے لیکن کل صورت حال بدل کر رکھ ڈالو۔ ہم پاکستان کے علاقے پر قبضہ کرکے رہیں گے۔‘‘اور پھر تالیوں کا شور اُٹھا۔
آخر رات کی تاریکی میں بھارت نے پاکستان پر غیر اعلانیہ چڑھائی کر دی۔ ابھی سورج بھی طلوع نہ ہوا تھا کہ پاک آرمی نے دیکھا کہ ٹینکوں کی قطار پاکستان کی طرف بڑھی آرہی ہے پاک آرمی کے ٹینک تو مقابلے میں کچھ بھی نہ تھے چند گنتی کے ٹینک کیا کرسکتے تھے اسلحہ سے لڑنے کے لیے بھی فوج انڈیا کے پاس زیادہ تھی کشن دوربین لگائے نظارہ کر رہا تھا اسے اپنی بہت بڑی تعداد میں فوج اور ٹینک مغرور بنا رہے تھے۔ مقابلے میں موجود پاکستانی فوج کو کم پاکر وہ دل ہی دل میں مسکرا دیا۔
اچانک کشن دیکھتا ہے کہ اس کا جو ٹینک آگے بڑھتا ہے ہوا میں اچھل کر ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے یہ دیکھ کر اس کے پسینے چھوٹ گئے۔
اس نے تاخیر کیے بغیر ٹینک سے چھلانگ لگائی اور مورچہ بندہوا اور پھر 
اس نے اپنا ٹینک بھی ہوا میں ٹکٹروں میں تقسیم دیکھا۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیسے ہورہا ہے۔ دوربین لگاکر جائزہ لیا تو کشن نے دیکھا کہ پاکستانی نوجوان بھاگے بھاگے اس کے ٹینکوں کی طرف آتے ہیں اور ٹینک کے نیچے لیٹ جاتے ہیں جس سے ٹینک ہوا کے دوش اُڑ رہا ہوتا ہے ۔یہ منظر دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا مگر واقعی ایسا ہورہا تھا۔ وہ چیخ اُٹھا اوروائرلیس آن کیا۔
’’سر پاک آرمی تو خود موت کو گلے لگارہی ہے ٹینک بتدریج ختم ہو رہے ہیں ایسے میں کسی ملک کو فتح کرنا فقط خواب ہی ہوسکتا ہے۔‘‘
’’کشن حوصلہ مت ہارو اور اسلحہ لے لو مگر آپریشن ناکام مت ہونے دینا۔‘‘
’’سر اسلحہ کا میں کیا کروں گاوہ بے خوف و خطر جانیں لڑا رہے ہیں۔۔۔۔ان کو فتح کرنا ناممکن ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر کشن نے اپنی فوج کو لڑنے کے لیے آگے کیا ۔مگر پاک فوج اس طرح جھپٹی کہ کشن نے اپنی پوزیشن چھوڑ کر پیچھے کو دوڑ لگا دی اپنے افسر کو میدان جنگ سے بھاگتے دیکھ کر باقی فوج کا حوصلہ بھی ٹوٹ گیا اور وہ بھی میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اور پھر تمام انڈین آرمی نے انڈیا پہنچ کر سکون کا سانس لیا۔مگر پاک فوج تھی کہ فتح کے جھنڈے گاڑھتی چلی آرہی تھی،حالات الٹ ہو چکے تھے۔
اقوام متحدہ سے رحم کی اپیل کی گئی اس نے پاک فوج کو معاف کرنے کا کہا تو پاک فوج نے قبضے کیے ہوئے علاقے واپس کردیئے۔
کشن فوج سے استعفیٰ لکھ رہا تھا اور ساتھ ساتھ زور زور سے قہقہے لگا رہا تھا اس کے والد کمرے میں داخل ہوئے تو اس کی حالت دیکھ کر حیران ہوئے۔
’’کشن! تم محاذجنگ سے لوٹے ہو بھگوان نے تمہیں خریت سے پہنچا دیا ہے یہ اتنی زور زور سے قہقہے کیوں لگا رہے ہو۔‘‘
’’پتاجی! وہ بھاگ بھاگ کر آرہے تھے اور خود ہی ٹینک کے نیچے لیٹ رہے تھے۔ ٹینک ان پر گزرنے سے ریزہ ریزہ ہو جاتا تھا ہم نے تو سارا سامان چھوڑا اور گھر کو دوڑ لگادی کہ اب خیر نہیں۔۔۔۔۔
ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔‘‘
کچھ دنوں میں کشن ذہنی مریض بن گیا اس کے والد نے ڈاکٹر کو بلایا تو پتہ چلا کہ لاکھوں فوجیوں کی طرح وہ بھی فارغ العقل ہو چکا ہے کیونکہ جب انسان ایسے ناقابل یقین لمحات دیکھ لے جن کو انسانی عقل سلجھا نہ سکے تو مسلسل ایک چیز پر غورو فکر انسان کا ذہین خراب کر دیتی ہے۔

*****

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top