skip to Main Content

ابو علی کی انگوٹھی

جاوید بسام

۔۔۔۔۔۔۔۔

عرصہ گزرا بغداد میں ابو علی نام کا ایک آدمی رہتا تھا۔ وہ کپڑے کا تاجر تھا۔ اپنی عجیب و غریب حرکتوں اور عادتوں کی وجہ سے وہ پورے بغداد میں مشہور تھا۔ اس کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پرسبز رنگ کا پتھر لگا ہوا تھا، اگرچہ وہ کوئی بہت قیمتی انگوٹھی نہیں تھی لیکن ابو علی اسے بہت سنبھال کر رکھتا اور ہر وقت پہنے رہتا تھا کیونکہ وہ اس کے دادا مرحوم کی واحد نشانی تھی۔
ایک دن وہ حمام میں نہانے گیا۔ نہاتے ہوئے اس نے انگوٹھی اتار کر ایک طرف رکھ دی لیکن واپس آتے ہوئے اسے اٹھانا بھول گیا۔ گھر آکر جب اس کی نظر اپنے ہاتھ پر پڑی تو وہ پریشان ہو گیا اور فوراً حمام کی طرف بھاگا۔ وہاں پہنچ کر اس نے انگوٹھی تلاش کی لیکن وہ نہیں ملی۔ اس نے حمام کے ملازم سے دریافت کیا۔” کیا میرے بعد کوئی یہاں آیا تھا؟“
ملازم بولا: ”ہاں اصفہان کا اکبر نامی تاجر آیا تھا۔“
”میرے بھائی! وہ کہاں ٹھہرا ہوا ہے؟“ ابو علی نے لجاجت سے پوچھا۔
”وہ شاید مسجد کے ساتھ والی سراے میں ٹھہرا ہے۔“ ملازم بولا۔
ابو علی نے فوراً سر اے کا رخ کیا۔ سراے کے نگراں نے بتایا کہ اکبر یہاں تھا لیکن کچھ دیر پہلے وہ چلا گیا ہے۔یہ سن کر ابو علی کے ہاتھوں کے توتے اڑ گئے۔ اس نے رنجیدہ لہجے میں پوچھا۔ ”کیا وہ اصفہان واپس گیا ہے؟“
نگراں بولا: ”مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں گیا ہے۔“
ابو علی چاہتا تھا کہ تیز رفتار گھوڑا لے کر اس کے پیچھے جائے لیکن پھر خیال آیا اگر وہ کسی اور طرف گیا ہوگا تو اس کا سفر بےکار جائے گا وہ مایوسی سے گھر لوٹ گیا۔ رات کو دیر تک اپنی انگوٹھی کے بارے میں سوچتا رہا۔ سوتے ہوئے خواب میں اسے دادا جی نظر آئے۔ وہ کافی غصے مےں نظر آرہے تھے۔ وہ ہاتھ ہلا ہلا کر کہہ رہے تھے۔”ابو علی نالائق! تو ہماری اتنی چھوٹی سی چیز کی حفاظت نہ کرسکا۔“
ابو علی کی گھبرا کر آنکھ کھل گئی۔ وہ بہت پشیمان تھا۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی انگوٹھی کی تلاش میں اصفہان جائے گا۔
دوسرے دن اس نے دکان اپنے ایک ہوشیار ملازم کے سپرد کی اور ایک تیز رفتار گھوڑا لے کر روانہ ہو گیا۔ لمبی مسافتیں طے کرتا وہ تیزی سے چلا جا رہا تھا کہ ایک جنگل کے قریب کچھ گھڑ سواروں نے اسے روک لیا۔ وہ لٹیرے تھے ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں اور منھ پر کپڑا بندھا تھا۔ انہیں دیکھ کر ابو علی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ اسے پکڑ کر اپنے ٹھکانے پر لے گئے۔ سردار نے اس کی تلاشی لی اور کپڑوں میں سلی ہوئیں اشرفیاں ڈھونڈ نکالیں۔ ابو علی ان کی منت سماجت کررہا تھا کہ اسے چھوڑ دیں، لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ سردار نے پوچھا۔ ” تیرا نام کیا ہے اور تو کیا کام کرتا ہے؟“
ابو علی نے اپنا نام کچھ اور بتایا اور کہا کہ وہ ایک غریب آدمی ہے اور کام کی تلاش میں جا رہا ہے، کیونکہ اس نے سن رکھا تھا کہ لٹیرے امیر مسافروں کے بدلے بھاری تاوان وصول کرتے ہیں اور پھر انہیں مار دیتے ہیں۔ سردار ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ابو علی کا کیا کرے کہ ایک لٹیرے نے مشورہ دیا کہ اسے مفت کا ملازم رکھ لیتے ہیں۔ جانوروں کی دیکھ بھال کرلیا کرے گا، چنانچہ انہوں نے ابو علی کے ذمہ یہ کام لگا دیا۔ وہ سارا دن ان کے جانوروں کو دانا پانی دیتا، ان کی مالش کرتا اور باڑے کی صفائی میں لگا رہتا۔ ساتھ ہی اپنی قسمت کو بھی کوستا رہتا تھا۔ وہ اسے دن میں ایک بار کھانے کو دیتے اور رات کو پیروں میں بیڑیاں ڈال دیتے کہ وہ بھاگ نہ سکے۔
اس طرح کئی مہینے گز ر گئے۔ ابو علی بہت کمزور ہو گیا تھا۔ وہ ہر وقت آنسو بہاتا رہتا۔ ایک دن لٹیروں نے ایک تجارتی قافلہ لوٹا جس سے انہیں بہت سا قیمتی سامان ہاتھ لگا۔ خوشی میں انہوں نے خوب جشن منایا اور رات کو تھک کر سب مدہوشی کی نیند سو گئے لیکن ابو علی جاگ رہا تھا وہ چاندنی رات تھی۔ ابو علی اکثر وہاں سے فرار کے منصوبے بناتا رہتا تھا لیکن ان پر عمل کرنا اسے مشکل لگتا تھا۔ وہ اداسی سے چمکتے چاند کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر اس آدمی پر پڑی جس کے پاس بیڑیوں کی چابی رہتی تھی۔ وہ بے خبر سو رہا تھا۔ اس کی جیب میں سے چابی باہر نکلی نظر آرہی تھی۔ ابو علی نے اﷲ کا نام لے کر آہستہ آہستہ اس طرف کھسکنا شروع کیا آخر وہ کامیاب ہوا۔ اس نے بیڑیاں کھولیں اور ایک گھوڑا لے کر وہاں سے بھاگ نکلا۔ اس کا رخ اصفہان کی طرف تھا لیکن اس نے غلطی سے جنگلی گھوڑا کھول دیا۔ وہ اسے گرانے کی پوری کوشش کررہا تھا۔ ابو علی کو اسے قابو میں رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
وہ اصفہان کے قریب پہنچ گیا تھا کہ اچانک گھوڑے نے اسے اپنی پیٹھ سے اچھال دیا۔ ابو علی پتھریلی زمین پر گرا اسے سخت چوٹیں آئےں اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ گھوڑا فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گیا تھا۔ ابو علی کی آنکھ کھلی تو وہ ایک کمرے میں لیٹا تھا۔ دروازے میں سے کسی باغ کی ہریالی نظر آرہی تھی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو تکلیف سے کراہنے لگا۔ اسی دوران ایک بوڑھی عورت اندر آئی اور بولی: ”بیٹا لیٹے رہو، تمھیں بہت چوٹیں آئی ہیں، میں نے طبیب کو بلایا ہے۔“
” میں کہاں ہوں؟“ ابو علی نے پوچھا۔
”تم میرے باغ میں ہو، باہر راستے پر پڑے تھے میں اپنے ملازم کی مدد سے اندر لائی ہوں۔“
اسی وقت ملازم، طبیب کو لے آیا۔ طبیب نے ابو علی کو دوا دی۔ ابو علی نے عورت کا شکریہ ادا کیا۔ عورت نے پوچھا۔
”وہ کہاں سے آیا ہے؟“ ابو علی نے بتایا کہ وہ اپنی انگوٹھی کی تلاش میں بغداد سے آیا ہے۔ غرض مہربان عورت نے ابو علی کی اچھی طرح تیمارداری کی۔ کچھ دنوں میں اس کے زخم ٹھیک ہو گئے تو اس نے عورت سے اجازت چاہی اور شہر کی طرف چل دیا۔ اصفہان بہت بڑا شہر تھا۔ ابو علی پر جلد ہی یہ حقیقت کھل گئی کہ صرف نام سے کسی کو تلاش کرنا آسان نہیں۔ وہ بازار میں گھومتا رہاپھر اسے بھوک ستانے لگی تو پتا چلا کہ جیب میں پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔ اسے اپنی بے وقوفی پر ہنسی آگئی، آخر اسے فاقہ کرنا پڑا اور رات مسجد میں سو کر گزاری۔
اگلے دن اس نے بوڑھی عورت کے باغ کا رخ کیا۔ وہ امرودوں کا موسم تھا۔ تمام درخت امرودوں سے لدے تھے۔ بہت سے پھیری والے پھل خریدنے وہاں آئے ہوئے تھے۔ ابو علی نے عورت سے درخواست کی اسے بھی امرود دے دیے جائیں تاکہ انہیں بیچ کر وہ اپنی گزر بسر کرسکے۔ عورت کو یقین تھا کہ ابوعلی ایماندار آدمی ہے۔
جلد ہی ابو علی نے تمام امرود بیچ دیئے۔ اب وہ یہی کرتا روزانہ کبھی امرود ، کبھی خربوزے باغ سے لاتا اور انہیں بیچ دیتا۔ جلد ہی اس نے عورت کی اصل رقم ادا کردی۔ کام سے فارغ ہو کر وہ اکبر نامی تاجر کی تلاش میں گھومتا رہتا۔ وہ اسے بازاروں، مسجدوں اور قہوہ خانوں مےں تلاش کرتا لیکن کامیاب نہیں ہوتا۔
ایک دن وہ ایک قہوہ خانے میں اداس بیٹھا تھا کہ قہوہ خانے کے مالک نے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ ابو علی نے اسے اپنی داستان سنائی ۔ مالک بولا: ”کیا تم اسے پہچانتے ہو؟“
ابو علی نے نفی میں گردن ہلائی۔ ”کیا تمھیں اس کا کام پتا ہے؟“
ابو علی نے کہا:” نہیں۔“ اپنی ستم ظریفی پر اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے تھے۔
مالک بولا: ”اس شہر میں سیکڑوں اکبر رہتے ہیں۔خیر میں تمھاری مدد کرتا ہوں۔ میں اکبر نام کے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں۔ ایک اکبر وہ ہے جو عطر کا تاجر ہے لیکن وہ تجارتی سفر پر نہیں جاتا۔“ وہ اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے خودکلامی کے انداز میں بول رہا تھا۔ ”دوسرا کھجوروں کا تاجر ہے لیکن وہ تو کافی دنوں سے ملک شام گیا ہوا ہے اور ہاں یاد آیا تم اس اکبر کی تلاش میں تو نہیں ہو جو مسالوں کا تاجر ہے۔ وہ کچھ مہینوں پہلے بغداد گیا تھا۔ ہاں وہی ہوگا۔ چلو ہم اس کے پاس چلتے ہیں۔“
ابو علی کو کچھ امید ہوئی۔ وہ دعا کرتا ہوا اس کے ساتھ ہولیا۔ وہ شہر کی پتلی پر ہجوم گلیوں سے گزرتے مسالا منڈی پہنچے ۔ وہاں جگہ جگہ مرچیں پیسی جا رہی تھیں۔ ابو علی کو چھینکیں آنے لگیں اور آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ آخر وہ ایک دکان پر رک گئے۔ قہوہ خانے کے مالک نے ہانک لگائی: ”ہاں بھئی! اکبر میاں تشریف رکھتے ہیں؟“
اندر سے ایک نوجوان باہر آیا اور بولا: ”وہ دکان پر نہیں ہیں۔“
مالک بولا: ”انہیں بلاؤ، ہمیں ان سے ضروری کام ہے۔“
”لیکن وہ تو کل ہی ایک تجارتی قافلے کے ساتھ قندھار چلے گئے ہیں۔“
نوجوان نے کہا۔ یہ سن کر ابوعلی کے منھ سے آہ نکلی اور وہ دھم سے ایک مونڈھے پر بیٹھ گیا۔ قہوہ خانے کے مالک نے نوجوان کو ابوعلی کی کہانی سنائی اور پوچھا کہ وہ کب واپس آئےں گے؟“
وہ بولا: ” انہےں آنے مےں تین چار ماہ لگیں گے۔“
قہوہ خانے کا مالک بولا: ”لو میاں ابو علی! تمھارا شکار پھر ہاتھ سے نکل گیا۔ میری بات مانو تو واپس چلے جاؤ۔“ لیکن ابو علی نہ مانا۔ دوسرے دن اس نے مہربان بوڑھی عورت سے ایک گھوڑا ادھار لیا اور قندھار کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر وہ سیدھا مسالا منڈی پہنچا اور وہاں کے دکانداروں سے اکبر نامی تاجر کے بارے میں دریافت کیا۔ ایک تاجر نے اس سراے کا پتا بتا دیا جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا۔ ابوعلی وہاں پہنچا آخر اسے مسالوں کا تاجر اکبر مل گیا۔ ابو علی نے جب اس سے اپنی انگوٹھی مانگی تو وہ سوچ میں پڑ گیا پھر بولا: ” ہاں مجھے کچھ کچھ یاد تو آرہا ہے کہ میں نے حمام کے فرش پر ایک انگوٹھی پڑی دیکھی تھی لیکن میں نے تو اسے اٹھا کر اوپر طاق میں رکھ دیا تھا کہ کہےں پانی کے ساتھ بہہ کر نالی میں نہ چلی جائے۔“
یہ سن کر ابو علی نے ایک چیخ ماری اور چکرا کر گر گیا۔ تاجر نے اسے پانی کے چھینٹے مارے تو اسے ہوش آیا۔ وہ دیر تک ابوعلی کے ہاتھ پاؤں سہلاتا رہا اور اسے دلاسہ دیتا رہا۔ کچھ دیر بعد اس کی طبیعت ٹھیک ہوئی تو وہ بولا: ”شاید میرے نصیب میں یہ پریشانیاں لکھی تھیں، میں خواہ مخواہ دربدر کی خاک چھانتا رہا۔“
لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ وہ دل شکستہ واپس روانہ ہو گیا۔ بہت دنوں بعد ہزاروں میل کا فاصلہ طے کرتا وہ بغداد پہنچا۔ اس کی بہت بری حالت تھی۔ وہ تھکا ہارا سب سے پہلے حمام مےں گیا، آخر اسے انگوٹھی مل گئی۔ وہ طاق کے اوپر ایک دراز مےں پھنسی ہوئی تھی۔ ابوعلی نے نکال کر پہنی تو اس کی جان میں جان آئی پھر وہ گھر چلا گیا۔ وہاں اس کی بیوی پریشان بیٹھی تھی کیونکہ ابوعلی کا ہشیار ملازم تمام کمائی لے کر رفوچکر ہوگیا تھا۔ دکان بھی خالی پڑی تھی۔ ابوعلی پھر غریب ہوگیا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے کچھ رقم ادھا ر لے کر کام شروع کر دیا۔ اس لمبے سفر سے اس نے بہت کچھ سیکھا تھا۔ اس میں مشکلات سے نمٹنے کی طاقت آگئی تھی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ جلد بازی اچھی چیز نہیں اور ہر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے اور ہاں اب اس نے اپنے دادا کی واحد نشانی کو سنبھال کر تجوری میں بند کردیا تھا۔

٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top