skip to Main Content
آخری حکم

آخری حکم

ابن آس محمد

۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔کمانڈریہ بھول گیا تھا کہ شہید کسی کا آرڈر نہیں مانتے ۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔

رات گہری ہو گئی تھی۔ہر طرف سناٹا تھا۔ گھپ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہیں دے رہا تھا،اِس قدر اندھیرے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چاند مکمل طور پر سیاہ بادلوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا ۔جس کی وجہ سے پہاڑیاں دیوقامت بھوت دکھائی دے رہی تھیں ۔

کیپٹن عامر اپنے ساتھی صدیقی کے ساتھ اپنے بنکر میں خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اُسے گھر کی یاد آرہی تھی۔ اپنا پانچ سالہ بیٹا جاوید آنکھوں کے سامنے مسکراتا دکھائی دے رہا تھا۔

’’بس ۔۔۔اَگلے ہفتے چھٹیوں پر جانا ہے۔ جاوید کی سال گرہ ہے دس دن بعد۔‘‘

صدیقی نے مسکرا کر پوچھا۔ ’’اب تو باتیں کرنے لگا ہوگا۔‘‘

’’ہاں فون پر آمنہ سے بات ہوتی ہے تو جاوید سے بھی بات ہوتی ہے، تتلا کر بولتا ہے، کہتا ہے ’’ پاپا تب آئیں دے ۔۔۔دَلدی آداؤ۔۔۔‘‘

صدیقی ہنس پڑا:’’ وہ توتتلا کر بولتا ہے یار ،تم کیوں تتلا رہے ہو؟‘‘کیپٹن عامر بھی ہنسنے لگا ۔

یوں ہی ہنستے ۔۔۔باتیں کرتے ہوئے عشاء کا وقت ہوگیا۔

پہلے کیپٹن عامر نے بنکر میں نماز پڑھی اورصدیقی مشین گن تھامے بیٹھا رہا۔۔۔ پھر صدیقی نماز پڑھنے لگا تو کیپٹن عامر نے مشین گن سنبھال لی ۔

نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ اُن کے کمانڈر کی آواز سنائی دی ۔

’’ سب ٹھیک ہے نا ؟‘‘’’ جی سر!‘‘ دونوں نے بہ یک وقت جواب دیا۔ان کا کمانڈر اُن کی پُشت پرکھڑا تھا۔

’’ گڈ ۔۔۔‘‘ کمانڈر بٹ نے کہا۔

’’ جوانو۔۔۔آج ہو شیار رہنا ہے ۔۔۔‘‘

’’یس سر ۔۔۔‘‘ کیپٹن عامر نے کہا۔

’’ پاک آرمی کے جوان ہیں ہم۔۔۔ ہوشیار ہی رہتے ہیں ہر وقت ۔‘‘

’’ چوکس اور تیار ۔‘‘ صدیقی نے بھی پُر عزم لہجے میں کہا ۔

’’ شاباش۔‘‘ کمانڈر نے کہا ۔’’ آج خبر ملی ہے کہ رات کے اندھیرے میں پہاڑ کے پیچھے سے دشمن پیش قدمی کرے گا ۔۔۔‘‘

’’ مارا جائے گا سر ۔۔۔‘‘ کیپٹن عامر نے جوش سے کہا۔

’’ لیکن تم لوگوں کو بالکل چپ رہنا ہے بات نہیں کرنی خدشہ ہے کہ آدھی رات کے بعد وہ موو کریں گے اورآوازوں پرایکشن لیں گے سو کچھ بھی ہو جائے طوفان آجائے یا زلزلہ ۔۔۔بات نہیں کرنی ۔۔۔جب تک کہ دِن کا اُجالا نہ پھیل جائے ۔۔۔اور ہاں ۔۔۔اگر وہ اس مورچے تک پہنچ جائیں ۔۔۔بہت قریب آجائیں ۔۔۔تو پھر جو تم بہتر سمجھو ۔۔۔لیکن صرف گرنیڈ استعمال کرنا ۔۔۔رائفل کا کوئی فائر نہ ہو ۔‘‘

’’ کیوں سر ۔۔۔فائر کیوں نہ کریں ۔۔۔؟‘‘

’’ یہ دشمن کا علاقہ ہے صدیقی ۔۔۔وہ یہاں کے چپے چپے سے واقف ہے ۔۔۔رائفل کے فائر سے دشمن کو ہمارے مورچوں کی سمت کا پتا چل جائے گا ۔۔۔رات کے اندھیرے میں گولی اپنا راستا بتاتی ہے۔۔۔‘‘

’’سمجھ گئے سر ۔‘‘ دونوں نے مؤدب انداز میں جواب دیا۔

’’ یہ میسج قریب کے تمام مورچوں میں پہنچادو ۔‘‘

’’او کے سر ۔۔۔‘‘

کمانڈر کے جانے کے بعد ۔۔۔دوسو گز کے فاصلے پر موجود دوسرے مورچے تک میسج پہنچانے کی ذمے داری صدیقی نے نبھائی ۔۔۔

ہر مورچے میں صرف دو جوان تھے ۔۔۔کل دس مورچے تھے اور سب دودو سویا چار سو گز کے فاصلے پرتھے اور ہر مورچے کے درمیان پہاڑی ٹیلے اور چٹانیں تھی ایک دوسرے کے مورچے کو براہ راست دیکھنا ممکن نہیں تھا۔

یہ مورچے پاک آرمی کے جوانوں نے ایک ہفتہ پہلے بنائے تھے جب دشمن نے رات کی تاریکی میں بزدلانہ طریقے سے حملہ کیا تھا ۔۔۔مگر پاک آرمی کے جوانوں کی بر وقت کارروائی سے دشمن بوکھلا گیا تھا ۔۔۔اور اپنے مورچے تک چھوڑ کر بھاگ گیا تھا ۔

پاک آرمی کے جوان ان کے تعاقب میں دوڑتے ہوئے اُن کے کچھ علاقے میں گھس گئے تھے ۔۔۔اور یہ بہت حساس لوکیشن تھی ۔۔۔اس لوکیشن کی وجہ سے دشمن پر پوری طرح نظر رکھنے کا موقع ہاتھ آگیا تھا ۔۔۔

یہ وہی پہاڑی سلسلہ تھا جہاں دشمن اُس علاقے کی لوکیشن سے فائدہ اٹھا کر بار بار پاک آرمی کے جوانوں پر شب خون مارتا تھا ۔۔۔اور قریبی دیہاتوں پر اندھا دھند فائرنگ کر کے اکثر معصوم جاں بحق کر دیا کرتا تھا۔

اب اِس نصف میل کے علاقے پر پاک آرمی کے جوانوں کے قبضے کے بعد دشمن کی پیش قدمی اور روز روز کی بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ رُک گیاتھا۔۔۔ کیوں کہ اب یہ مورچے آرمی کے جوانوں کے قبضے میں تھے۔

آرمی کے جوان کوئی نصف میل تک دشمن کے علاقے میں گھس گئے تھے اور انھوں نے ایک پہاڑی کے قریب چٹانوں کے پیچھے اور مٹی کے ٹیلوں میں اپنے دس مورچے بنا لیے تھے ۔

کمانڈراحکامات دے کر اُن سے کچھ فاصلے پر موجود پہاڑی کے پیچھے اپنے مورچے میں چلا گیا، اُس کے جانے کے بعد عامر اور صدیقی نے چپ سادھ لی ۔۔۔

اَب نہ تو عامر کے ذہن میں اپنے بیٹے کی تصویر جھلملا رہی تھی اورنہ ہی صدیقی اپنی بوڑ ھی ماں کو یاد کر رہا تھا جو گاؤں میں عید پر اُس کے آنے کی منتظر تھی ۔

رات گزرتی جا رہی تھی۔ اندھیرا پھیلتا ہی جا رہا تھا ،ہر طرف ریت تھی ۔ٹیلے تھے ۔چٹانیں تھیں اور سناٹا تھا۔ جھینگر کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی اورکوئی ریتیلا گرگٹ سرسراتے ہوئے گزرتا تو اُس کی سرسراہٹ بھی کانوں تک پہنچ رہی تھی ۔

پھر دھیرے دھیرے چاند اپنی جھلک دکھلا نے لگا مگر بادل بھی چاند سے شرارت کر رہے تھے۔۔۔کبھی اُسے چھوڑ دیتے اور کبھی اُس پر چھا جاتے ۔۔۔

کیپٹن عامر اپنی رائفل تھامے ۔۔۔زمین میں کھدے ہوئے دس بائی دس کے گڑھے میں بیٹھا تھا۔۔۔ وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اَندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔

دونوں خاموش تھے ۔کمانڈر کا حکم تھا کہ بولنا نہیں ہے ۔۔۔چپ ہی رہنا ہے ۔۔۔سو وہ چپ تھے ۔۔۔کوئی بات نہیں کر رہے تھے۔

کوئی رات کا ڈیڑھ بجا ہو گا ۔۔۔کہ کسی کی سرگوشی سنائی دی ۔۔۔بالکل قریب سے ۔۔۔

’’ پاکستانی جوانو ۔۔۔آج رات ۔۔۔تمھاری آخری رات ہے۔‘‘

آواز بہت قریب سے آئی تھی ۔صدیقی نے فوراًرائفل سیدھی کی تو کیپٹن عامر نے اُس کی رائفل پر ہاتھ رکھ دیا۔صدیقی نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا ۔کیپٹن عامر اِنکار میں سر ہلا رہاتھا ۔

صدیقی ایک طویل سانس لے کر رہ گیا ۔دونوں نے چپ سادھ لی۔دشمن بہت قریب آچکا تھا ۔قریب کی ہی چٹان کے آس پاس تھا۔۔۔اُن کی پوزیشن جاننے کے لیے دھمکیاں دے رہا تھا ۔۔۔سمجھ رہا تھا کہ جواب میں کسی زمینی مورچے سے فائر آئے گا ۔۔۔اور پاک آرمی کے جوانوں کی پوزیشن معلوم ہو جائے گی۔

مگر کچھ نہ ہوا۔۔۔سب خاموشی کا قفل ڈالے بیٹھے رہے ۔

کچھ دیر بعد کسی کے ہنسنے اور قہقہے لگانے کی آواز اُبھری اور کسی نے اونچی آواز میں کہا ۔

’’ ہم نے تمہیں دیکھ لیا ہے پاکستانی پھوجیو۔۔۔آج تم جروور مروگے۔‘‘

بہت قریب سے آواز آئی تھی۔دشمن رینج میں تھا اورکیپٹن عامر بالکل تیار تھا۔ہاتھ میں گرنیڈ تھا ۔ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اُس نے گرنیڈ کی پن کھینچی اور ٹھیک نشانے پر پھینک دیا۔

اَگلے ہی لمحے زور دار دھماکا ہوا ۔۔۔ دوتین چیخیں اور ہاے کی آوازیں بلند ہوئیں۔

اور ساتھ ہی تڑا تڑ گولیاں چلنے لگیں۔دشمن نے اَندھا دھند بغیر ہدف گولیاں برسانی شروع کردیں ۔

اندھی گولیاں شائیں شائیں کر کے اُن کے سروں پر سے گزر رہی تھیں مگر وہ دَم سادھے بیٹھے رہے ۔

اندھا دھند گولیوں کا مطلب تھا کہ وہ دشمن کی نظر میں نہیں تھے ۔دشمن کو آگے بڑھنا تھا ۔ دشمن چٹانوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا مگرآگے بڑھنے کی ہمت نہیں تھی کہ جانے کہاں کہاں مورچے ہیں ۔مورچوں کا اندازہ ہو تا تو دشمن حکمت عملی سے حملہ کر تامگر یہاں تو سناٹا تھا۔

اندھیرے میں صرف ایک گرنیڈ آیا تھا اور تین کو جہنم رسید کر گیا تھا۔ تاریکی کی وجہ سے یہ پتا لگانا بھی مشکل تھا کہ گرنیڈ کس طرف سے آیا ہے۔

دشمن کی فائرنگ سے اُن کے ٹھکانے کا پتا چل رہا تھا مگر پاک فوج کے جوانوں کو پیش قدمی کی اِجازت نہیں تھی ۔۔۔پہلے ہی وہ دشمن کے علاقے میں گھس آئے تھے اور اُنھیں کمانڈر کے حکم کے مطابق اپنے مورچوں میں خاموش رہنا تھا ۔مورچے نہیں چھوڑنا تھے۔ کچھ دیر خاموشی رہی۔

دشمن اپنے مرجانے والے ساتھیوں کا خاموشی سے ماتم کرتے رہے ۔۔۔اور پھر چند لمحوں بعد ۔۔۔ایک بار پھرتڑا تڑ گولیاں چلنے لگیں ۔۔۔شائیں شائیں کر کے اُن کے سروں پر سے گزرنے لگیں۔ دشمن اپنا غصہ اپنی گولیاں ضائع کر کے دکھا رہا تھا۔

وہ مزے سے مورچے میں لیٹے ایک دوسرے کو مسکراتے ہوئے دیکھتے رہے۔

اور پھر اچانک تھڈ تھڈ تھڈ کی کئی آوازیں اُبھریں ۔

کیپٹن عامر اور صدیقی کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دشمن نے کئی گرنیڈ پھینکے تھے جو اُن کے مورچے کے اِرد گرد آکر گرے تھے ۔

اَگلے ہی لمحے یکے بعد دیگرے کئی دھماکے ہوئے اور اِرد گر د کی ریت اُڑ کر اُن کے پورے جسم پر پھیل گئی ۔

دشمن کے تمام گرنیڈضائع ہو گئے تھے اور کسی کی چیخ سنائی نہیں دی تھی۔کچھ دیر سناٹا رہا۔

اور پھر ایک دَم سے دوبارہ ریت میں گرنیڈ گرنے کی دو تین آوازیں سنائی دیں۔ وہ سختی سے ہونٹ بھینچے بیٹھے رہے ۔

اُسی وقت چاند نے بادلوں کی اَوٹ سے سر نکالا۔۔۔اور اَگلے ہی لمحے صدیقی نے ایک گرنیڈ کو لڑھکتے ہوئے گڑھے میں گرتے دیکھا ۔دونوں کی سانس رُک گئیں۔ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا ۔

اَگلے ہی لمحے صدیقی نے اپنے قیمتی لمحے کو اَن مول لمحہ بنا دیا ۔

اُس نے اپنا خود اُتارا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے تھاما اور چھلانگ لگا کر گرنیڈ پر لیٹ گیا گرنیڈ اُس کے خود کے نیچے تھا ۔

’’ نہیں ۔‘‘ کیپٹن صدیقی کی سرگوشی نکلی ۔۔۔

’’ شش۔۔۔‘‘ صدیقی نے کیپٹن عامر کو دیکھا ۔

’’میری ماں سے کہنا ۔۔۔میرا انتظار نہ کرے ۔۔۔‘‘

اور بس ۔۔۔

ایک ساتھ کئی دھماکے ہوئے۔۔۔اور وہ گرنیڈ بھی پھٹا ۔۔۔جسے صدیقی نے اپنے نیچے چھپا لیا تھا ۔۔۔صدیقی کے چیتھڑے اُڑ گئے ۔۔۔جسم سے جان نکل گئی ۔۔۔مگر حلق سے آواز نہ نکلی ۔

کیپٹن عامر اُلٹ کر مورچے میں دوسری طرف گرا اور وہیں پڑے پڑے پھٹی آنکھوں سے صدیقی کے بے جان جسم کو دیکھنے لگا ۔

کمانڈر نے منھ بند کر نے کو کہا تھا ۔صدیقی نے توآنکھیں ہی بند کر لی تھیں ۔

کیپٹن عامر چیخ کر رونا چاہتا تھا ۔۔۔اِس قربانی پر صدیقی کو ماتم کا نذرانہ دینا چاہتا تھا ۔۔۔مگر چپ رہا۔۔۔کوئی آواز حلق سے نہ نکالی ۔۔۔صرف آنسو تھے ۔۔۔جو آنکھوں سے بہہ نکلے تھے اور وہ روک بھی نہ پایا ۔کوشش بھی کرتا تو شاید نہیں رُکتے ۔

وہ بھیگی آنکھوں سے بے حس وحرکت صدیقی کو دیکھتا رہا ۔۔۔اُس کے ساتھ گزرے ہوئے پل ۔۔۔پل پل کر کے آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہے ۔

دل تو چاہ رہا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر رودے ۔۔۔مگر کمانڈر کا حکم تھا ۔۔۔مورچے میں سے کوئی آواز نہیں جانی چاہیے۔

وہ آنسو پیتا رہا ۔۔۔خون گے گھونٹ اندر ہی اندر نگلتا رہا ۔اُسی وقت سائیں کی آواز اُبھری ۔۔۔اور بجلی سی چمکی ۔۔۔وہ اگر فوراً نیچے نہ جھک جاتا تو اُس کی گردن اُڑگئی تھی ۔۔۔

کسی رائفل کی سنگین ۔۔۔تلوار کی دھار کی طرح اُس کے سر کے اُوپر سے گزر گئی تھی ۔۔۔

اُس نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سر اُٹھا کر دیکھا تو آنکھوں کے سامنے دشمن فوجی کے بوٹ دکھائی دیے۔ جانے کب دشمن فوجی اُس کے مورچے پر آکھڑا ہوا تھا۔۔۔اور اُس نے گولی چلانے کے بجاے اپنی رائفل کی سنگین سے اُس کا سر کاٹ دینے کی کوشش کی تھی ۔

دشمن فوجی کا وار خطا گیا تھا۔۔۔ وہ دوبارہ ذرا سا جھکا اور دوبارا رائفل گھمائی ۔

کیپٹن عامر رونا بھول گیا ۔اگلے ہی لمحے اُس کی رائفل اُٹھی اور دشمن کی رائفل کی سنگین اُس کی رائفل کی سنگین سے رُک گئی ۔

اور پھر جیسے بجلی سی چمکی ۔۔۔کیپٹن عامر نے اپنی رائفل کی سنگین اُس کے پیر میں گھونپ دی ۔۔۔اُس کے حلق سے ایک دل خراش چیخ نکلی ۔

اَگلے ہی لمحے دشمن کی گولیوں کی باڑھ آئی اور دشمن فوجی کے جسم میں گھس گئیں ۔

ہاے کی دہائی دینے والا مزید کچھ کہے دَھب سے زمین پر گرا اور تڑپ بھی نہ سکا۔اُس کے بعد سناٹا چھا گیا۔شاید دشمن کو بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ اُنھوں نے آواز پر گولی چلا کر اپنے ہی فوجی کا دھڑن تختہ اُلٹ دیا۔

اب سمجھ میں آیا کیپٹن عامر کو کہ کمانڈر نے مورچے میں مکمل خاموشی کا حکم کیوں دیا تھا ۔

دشمن فوجی اور اس کی رائفل اُس کے مورچے میں گر گئی تھی۔ کیپٹن عامر نے اُس کی رائفل اُٹھائی تو چونک گیا۔

اُس کی رائفل کا میگزین خالی تھا ۔ اندھا دھند گولیاں چلا کر وہ اپنی رائفل کا میگزین خالی کر چکا تھا اور دوسرا میگزین لوڈ کرنے کا ٹائم نہیں تھا ۔۔۔اِسی لیے اُس نے کیپٹن عامر پر اپنی رائفل کی سنگین سے حملہ کیاتھا ۔۔۔

دشمن کی طرف سے اَب مکمل خاموشی اِختیار کر لی گئی تھی۔

کیپٹن عامر جانتا تھا کہ ایسے حالات میں ۔۔۔مکمل خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوتی ہے ۔۔۔

وہ دَم سادھے بیٹھا رہا۔۔۔آنے والے کسی ممکنہ طوفان کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرتا رہا ۔۔۔اب وہ اپنے مورچے میں اکیلا تھا ۔۔۔دشمن قریب میں تھا ۔

قریب کے تمام مورچوں میں بھی یہی حالت ہوگی ۔۔۔سب کمانڈر کے حکم پر اپنے مورچوں میں خاموش بیٹھے ہوں گے ۔

’’ پاکستانی پھوجیو۔۔۔تم جرورمر گے ۔۔۔بچ نہیں سکوگے ۔۔۔‘‘ ایک بار پھر کسی فوجی کی آواز گونجی۔

کیپٹن عامر خاموشی سے بیٹھا رہا ۔وہ جانتا تھا کہ کسی کے کہنے اور چاہنے سے کوئی نہیں مرتا اور کسی کے مارنے سے تو پاک فوج کے جوان مرتے ہی نہیں ہیں وہ تو شہید ہو جاتے ہیں ۔۔۔اُس کے ساتھ ۔۔۔اس کے بنکر میں ایک شہید موجود تھا ۔۔۔اُس کے حوصلوں کو مزید جلا بخش رہاتھا ۔

صدیقی کی شہادت نے اُسے مزید گر مادیا تھا ۔۔۔اُس کے حوصلوں کو اوربڑھا دیا تھا۔

’’ مرو گے ۔۔۔مرو گے ۔۔۔جرور مروگے ۔۔۔‘‘ آواز بار بار اُبھر رہی تھی۔

آواز میں اگرچہ موت دینے کی دھمکیاں تھیں مگر لرزش ایسی تھی کہ دھمکی دینے والا خود موت سے ڈرا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔

کیپٹن عامر کے ہونٹوں پر اِن حالات میں بھی مسکراہٹ دوڑ گئی۔

اُسے اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ آوازیں کس ٹیلے کی طرف سے آرہی ہیں لیکن کیپٹن عامر نے فائر نہیں کیا۔ وہ سمجھ گیاتھا کہ یہ دھمکیاں اُسے اشتعال دلانے کے لیے ہیں اوروہ کسی فائر کے منتظر ہیں۔

کچھ دیر بعد ایک بار پھراچانک ۔۔۔تھڈ تھڈ کی کئی آوازیں اُبھریں۔

دشمن نے درجنوں گرنیڈ ایک ساتھ پھینکے تھے۔

ایک گرنیڈ ہوا میں تیرتے ہوئے کیپٹن عا مر کے قریب آیا۔کیپٹن عامر نے ایک بھی لمحہ ضایع کیے بغیر اُسے مورچے میں گرنے نہیں دیا۔ہوا میں ہی اُس کوتھاما اور مورچے کی مٹی میں گرتے ہوئے واپس اس طرف پھینک دیا جدھرسے دھمکیاں آرہی تھیں ۔ایک ساتھ کئی دھماکے ہوئے۔

کچھ دھماکے کیپٹن عامر کے مورچے کے ارد گرد اور ایک دھماکا دشمنوں کے ٹیلے کے پیچھے ہوا۔

اطراف کی مٹی اُڑ کر کیپٹن عامر کو مٹی مٹی کر گئی اور اُس کے واپس پھینکے ہوئے گرنیڈ کا دھماکا ۔۔۔دشمن کے چار فوجیوں کو بے جان کرگیا۔

کیپٹن عامر ابھی مٹی کے طوفان سے نکلا بھی نہیں تھا کہ اُسے اپنے مورچے کے قریب کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔

اُس نے اپنا مٹی زدہ چہرہ اوپر اُٹھایا کہ ایک اور دشمن فوجی اُس کے مورچے کے بالکل قریب آچکا تھا اور اِس سے پہلے کہ کیپٹن عامر سنبھلتا اُس نے اپنی رائفل سمیت مورچے میں چھلانگ لگادی۔

کیپٹن عامر نے مورچے میں جست لگائی اور ایک لات دشمن کے پہلو میں ماری۔

وہ اُوغ کی آواز کے ساتھ نیچے کو جھکااور گرتے ہوئے اُس کی رائفل کی سنگین کیپٹن عامر کے پیٹ میں گھس گئی۔ کیپٹن عامر درد کی شدت سے کراہ اُٹھا ۔۔۔مگر اس نے حلق سے چیخ نہیں نکلنے دی ۔

بڑی مشکل سے اپنے پیٹ سے سنگین نکالی ۔۔۔اِتنی دیر میں دشمن فوجی جو جومورچے میں ہی گر گیا تھا ۔۔۔اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔اورپھر اُن کے درمیان ایک خوں خوار۔۔۔ دو بدو جنگ شروع ہوگئی ۔۔۔

دشمن فوجی کیپٹن عامر کے مقابلے میں زیادہ جسیم اور نکلتے ہوئے قد کا تھا۔

کیپٹن عامر بھی کچھ کم نہیں تھا مگر دشمن زیادہ طاقت ور تھا لیکن کیپٹن عامرکا تعلق اُس فوج سے تھا جو ہمیشہ سے ہی اپنے سے زیادہ طاقت ور اور بڑی فوج سے لڑتی آئی ہے۔ دونوں بری طر ح گتھم گتھا تھے زور آزما رہے تھے۔

دشمن فوجی اوپر اور کیپٹن عامر نیچے تھا وہ تڑا تڑ مکے مار رہا تھا۔ دونوں کے خود سر سے نکل کر مور چے میں ہی گر گئے تھے۔

کیپٹن عامر نے اپنا خود اُٹھایا اور دشمن کے سر پر دے مارا وہ سر پکڑ کر پیچھے کو جھکا اور کیپٹن عامر کو موقع مل گیا۔اُس نے تیزی سے پلٹاکھایا اور دشمن کو نیچے گر دایا۔۔۔

اب دشمن نیچے اور کیپٹن عامر اُوپر تھا ۔۔۔ اب وہ مکے کھا رہاتھا۔۔۔کچھ ہی دیر میں بد حال ہو گیا ۔۔۔مگر بے ہوش ہو تے ہوتے بھی اُس نے چلا کر کہا ’’ بھاگ کر آؤ۔۔۔یہ اکیلا ہے ۔۔۔‘‘

اِس کے ساتھ ہی ایک زور دار گھونسا اُس کے منھ پر لگا ۔۔۔اور وہ بے ہوش ہوگیا۔

ساتھ ہی فوجیوں کے دوڑتے قدموں کی آواز سنائی دی۔کیپٹن عامر شدید زخمی تھا۔ اُس کی حالت دگر گوں تھی۔ جسم سے خون کافی بہہ نکلا تھا ۔۔۔شدید نقاہت طاری تھی۔۔۔ اُس نے بڑی مشکل سے اپنے اوسان سنبھالے ۔۔۔مورچے سے سر اُٹھا کر دیکھا ۔۔۔ چار پانچ دشمن فوجی اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر دوڑتے ہوئے اُسی طرف آرہے تھے ۔۔۔ اُنھوں نے یہ اطلاع پاکر کہ یہاں ایک ہی فوجی ہے ۔۔۔اپنا مورچہ چھوڑ دیا تھا اور مورچے پر دھاوا بولنے کے لیے بھاگے چلے آرہے تھے۔

کیپٹن عامر نے اپنی ساری قوت مجتمع کی اور اپنے پاس موجود گرنیڈ میں سے ایک گرنیڈکی پن کھینچ کر سر پرپہنچ جانے والے دشمن کی طرف اچھال دیا۔۔۔

ایک زور دار دھماکا ہوا ۔۔۔اور سارے فوجی اچھل کر گرے، اُن میں سے کئی کام آگئے تھے اور ایک دو شدید زخمی تھے۔

کیپٹن عامر نے مورچے کی دیوار سے پشت لگالی اور گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ اُس پر شدید نقاہت طاری تھی۔

تیزی سے بند ہوتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اُس نے دیکھا کہ چاند ایک بارپھر بادلوں میں چھپ گیا تھا اور ہر طرف گہرا اندھیرا پھیل گیا تھا۔

اُس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ،اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے قریب کے مورچوں کے پاس فائرنگ کا تبادلہ ہو رہاہے۔

فائرنگ اور گرنیڈ کے تیز دھماکوں کی گونج میں اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ پھر اسے کچھ ہو ش نہیں رہا۔۔۔

رات پھر لڑائی جاری رہی ۔۔۔دشمن نے شب خون مار کر کئی مورچوں پر حملہ کیا تھا مگر وہ سواے ایک مورچے کے کسی مورچے تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب نہ ہو سکے تھے۔

جب سورج طلو ع ہونے لگا تو وہ خاموشی سے پیچھے ہٹ گئے ۔۔۔کیوں کہ دِن کے اُجالے میں دشمن پاک فوج کے نشانوں پر آسکتا تھا۔

سورج نکلا اور ہر طرف سکون ہوگیا۔ کمانڈر خود ایک مورچے پر موجود تھا ۔۔۔وہ حالات کا جائزہ لینے نکلا۔دشمن اَب دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔ دشمن ایک اِنچ بھی آگے بڑھنے میں ناکام رہا تھا۔ کمانڈر جب کیپٹن عامر کے مورچے کے قریب پہنچا تو چونک گیا۔

کیپٹن عامر کے مورچے کے پاس ۔۔۔کوئی درجن بھر دشمن فوجیوں کی لاشیں بکھری پڑی تھیں اور مورچے میں تین لاشیں موجود تھیں ۔۔۔دو دشمن کی ۔۔۔اور ایک پاک فوجی جوان صدیقی کی۔ کیپٹن عامر ایک طرف مورچے کی دیوار سے پشت لگائے بیٹھا تھا ،اُس کی آنکھیں بند تھیں۔

’’کیپٹن عامر ۔۔۔کیپٹن عامر ۔۔۔‘‘ کمانڈر نے چونک کر آواز دی ۔

مگر کیپٹن عامر خاموش تھا ۔۔۔اُس کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا ۔۔۔

کمانڈر نے رات کو تو حکم دیا تھا ۔۔۔کہ مورچے میں خاموش رہنا ہے ۔۔۔

کمانڈر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔۔۔اُس نے ارد گرد بکھری دشمن فوجیوں کی لاشوں کو دیکھا اور کیپٹن عامر کو سیلوٹ مارا ۔۔۔پھر کپکپاتی ہوئی آواز میں بولا ۔

’’ کیپٹن عامر ۔۔۔صوبیدار صدیقی۔۔۔میں نے مورچے میں خاموش رہنے کو کہا تھا ہمیشہ کے لیے خاموش ہونے کے لیے نہیں ۔۔۔میں حکم دیتا ہوں ۔۔۔چلو اُٹھو ۔۔۔کھڑے ہو جاؤ۔۔۔‘‘

نہ کیپٹن عامر اُٹھا اور نہ صوبیدار صدیقی ۔۔۔دونوں بے حس وحرکت پڑے تھے ۔

’’ میں تمھارا کمانڈر ہوں ۔۔۔تمھیں حکم دے رہا ہوں ۔۔۔خاموش مت رہو ۔۔۔چلو اُٹھ جاؤ۔۔۔باتیں کرو ۔۔۔کھڑے ہو جاؤ۔۔۔یہ آرڈر ہے ۔۔۔‘‘ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔

مگر یہ بھول گیا تھا ۔۔۔کہ شہید کسی کا آرڈر نہیں مانتے ۔۔۔

کچھ بولتے نہیں ۔۔۔لب کھولتے نہیں ۔۔۔

 

اس تحریر کے مشکل الفاظ

شب خون مارنا: رات کو اچانک حملہ کرنا

جھینگر: ایک قسم کا کیڑا

سنگین: ایک نوک دار ہتھیار جو بندوق پر لگا ہوا ہے

جست لگانا: چھلانگ لگانا

نقاہت طاری ہونا: کمزوری ہونا

کام آنا: ہلاک ہونا (محاورہ)

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top