skip to Main Content

آخری آدم خور

ش۔ کاظمی

…….

میسور کے پہاڑوں میں خونخوار درندوں سے دوبدو مقابلے کی پرتجسس روداد

……

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میرا تبادلہ ریاست میسور کے ضلع سموگا سے تین میل کے فاصلے پر تلگار تھی کہ جنگلات میں ہوگیا۔ ان دنوں وہاں کے جنگلوں میں چیتوں کی کثرت تھی۔ علاقے کی بیشتر آبادی ہندو تھی جو اپنے مردے جلاتے ہیں۔ یہ رسم کسی ندی یا دریا کے کنارے ادا کی جاتی۔ اس زمانے میں تلگار تھی کے کئی دیہات پہاڑیوں پر واقع تھے۔ ندی یا دریا ان سے کئی میل دور نیچے وادی میں بہتے تھے۔
عام حالات میں ہندو اپنی یہ مذہبی رسم بڑے اہتمام سے ادا کرتے۔ لیکن جب کسی وبا کے باعث لوگ زیادہ تعداد میں مرنے لگتے، تو یہی رسم خاصی حد تک سادہ اور سہل بن جاتی۔ عموماً وہ مردے کے منہ میں سلگتا کوئلہ ڈالتے اور اسے چوبی سے پر باندھ کر نیچے وادی میں پھینک دیتے۔ جب ان علاقوں میں انفلوئنزا پھیلا، تو تلگار تھی کے ہندوؤں نے یہی طریقہ آزمایا۔ انہیں خبر نہ تھی کہ یہ مذہبی رسم کچھ عرصے بعد ان کے لیے موت کا پیغام بن جائے گی۔
ان وادیوں میں چیتوں کی بہتات تھی۔ دوران وبا انسانی لاشوں کی وافر دستیابی کے باعث کئی چیتے آدم خوری میں مبتلا ہو گئے۔ درندے عموماً مرا ہوا شکار نہیں کھاتے۔ لگتا ہے ان دنوں جنگل میں عام شکار کم تھا، اس لیے وہ انسانی لاشوں کی طرف متوجہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی وبا ختم ہوئی، اس سے کہیں زیادہ مہلک وبا آدم خور چیتوں کی شکل میں تلگار تھی کے گرد و نواح پر نازل ہو گئی۔
مجھے نہیں معلوم کہ آدم خوروں کی صحیح تعداد کیا تھی اور انہوں نے اپنی وارداتوں کا آغاز کیسے کیا۔ بہرحال میں نے سات ماہ کے دوران چھ آدم خور چیتے ہلاک کیے جو مخصوص علاقے میں خوف و ہراس پھیلائے ہوئے تھے۔ میرے ہاتھوں ایک ہی مقام پر ہلاک ہونے والے آدم خوروں کی یہ ریکارڈ تعداد تھی۔ چھ آدم خوروں کی ہلاکت کے بعد علاقے میں ایک ماہ تک سکون رہا۔
ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ ایک دن کوئی دیہاتی دوڑا دوڑا تھانے آیا اور پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان مجھے بتایا کہ اس کے بھائی کو چیتا اٹھا کر لے گیا ہے۔ یہ خبر ملتے ہی میں اور راجو اس کے ساتھ چل پڑے۔ راجو کے پاس شاٹ گن تھی جبکہ میرے پاس رائفل اور ٹارچ۔ شام کے سائے گہرے ہوتے جا رہے تھے اور ہم رات سے قبل ہی جائے وقوعہ کا معائنہ کرنا چاہتے تھے۔
مقررہ جگہ پہنچ کر ہم نے دیکھا کہ بستی سے ذرا ہٹ کر جنگل کے کنارے دو جھونپڑیاں واقع ہیں۔ ایک جھونپڑی کی دیوار پھٹی ہوئی تھی اور زمین پر کسی کے گھسیٹے جانے کے نشانات کے ساتھ ساتھ خون کے دھبے بھی واضح تھے۔ پھٹی ہوئی دیوار کی ہیئت دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ چیتا خاصا جسیم اور طاقتور ہے۔
ہم دونوں نے دیہاتی کو وہیں رکنے کا اشارہ کیا اور چیتے کے نقوش پا اور خون کے نشانات کا معائنہ کرتے ہوئے جھونپڑے سے دور نکل آئے۔ فضا پر موت کا سکوت چھایا ہوا تھا مگر میری چھٹی حس مسلسل خطرے کی نشاندہی کررہی تھی۔ جیسے ہی میں نے ٹارچ کی روشنی جنگل کی سمت پھینکی،تیس گز دور جھاڑیوں میں پل بھر کے لیے دو آبگینے چمکے اور اگلے ہی لمحے خون آشام درندے کی غصیلی غراہٹیں خاموش فضا میں تلاطم برپا کر گئیں۔
ہم وہیں رک گئے۔ راجو نے اپنی شاٹ گن اور میں نے رائفل کندھے سے لگا لی۔ درندے کی طرف سے کسی بھی لمحے حملہ متوقع تھا لیکن چیتا جست لگا کر جھاڑیوں سے نکل گیا۔ اس کا رخ جنگل کی طرف تھا۔ اس کی محض جھلک ہی نظر آئی پھر وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہمیں اتنا موقع نہیں ملا کہ اس پر گولی چلاتے۔
آدم خور نے ابھی آدھا شکار ہی کھایا تھا۔ میں نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں تاکہ چھپنے کی کوئی جگہ مل جائے جہاں ہم اس کی واپسی کا انتظار کر سکیں۔ ابھی ہم جائزہ لے ہی رہے تھے کہ معاً ایک دھاڑ سنائی دی اور تیس چالیس گز دور جھاڑیاں یوں ہلنے لگیں جیسے طوفان آرہا ہو۔ ہمارے دائیں جانب پانچ فٹ اونچی ایک گھنی جھاڑی تھی جو خاصی پھیلی ہوئی تھی۔ میں پنجوں کے بل اس کی طرف رینگنے لگا اور راجو کو جھونپڑیوں کی طرف بڑھنے کا اشارہ کیا۔
راجو جیسے ہی جھونپڑیوں کے قریب پہنچا ایک دیوہیکل چیتا دھاڑ کے ساتھ اس پر حملہ آور ہو گیا۔ اس وقت میرے اور راجو کے درمیان بمشکل بیس پچیس گز کا فاصلہ تھا۔ جیسے ہی چیتا نشانے کی زد پر آیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کر دیئے۔ اسی لمحے راجو کی شاٹ گن کا دھماکا بھی سنائی دیا۔ میں نے ایک پل کے لیے چیتے کو فضا میں قلابازی کھاتے دیکھا اور پھر وہ نظروں سے یوں اوجھل ہو گیا جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا ہو۔
دورانِ شکار اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لہٰذا مجھے کچھ زیادہ حیرت نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر تک وہیں رک کر میں بھی جھونپڑے کی طرف بڑھا۔ یہ جھونپڑا چیتے کی دست برد سے محفوظ رہا تھا۔ اس میں دو عورتیں اوروہ مرد بیٹھا نظر آیا جنہیں میں بلا کر لایا تھا۔ تینوں سخت خوفزدہ تھے۔ ایک عورت اس کی بیوی تھی اور دوسری اس کے بھائی کی بیوہ جسے آدم خور نے ہلاک کر دیا تھا۔ ہم نے انہیں تسلی دی، تو ان کے اعصاب پرسکون ہوئے۔
بدقسمتی سے اس مقام پر گھاس اور خاردار جھاڑیوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ ادھ کھائی لاش کے قریب کوئی درخت بھی نہ تھا جس پر مچان بنائی جا سکتی۔ تھوڑی دیر بعد پورا چاند طلوع ہو گیا اور دور دور تک چاندنی نے گھاس کے قطعوں کو منور کر دیا۔ ہمارے پاس وافر مقدار میں گولیاں موجود تھیں اور ہمیں یقین تھا کہ آدم خور باقی ماندہ لاش کھانے ضرور واپس آئے گا۔
جھونپڑے میں موجود تینوں نفوس اب بھی دہشت زدہ تھے۔ ہمارے اصرار کے باوجود وہ گاؤں جانے پر تیار نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ دن چڑھنے کے بعد ہی وہاں سے جائیں گے۔ اس دوران راجو نے لالٹین روشن کر دی۔ اب مجھے جھونپڑے کی دیوار کے ساتھ چھکڑے کا ایک پہیہ پڑا نظر آیا۔ قریب جا کر دیکھا، تو وہ خاصا مضبوط اور وزنی تھا۔
اسے دیکھتے ہی مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ یہ کہ لاش کے قریب ایک گہرا گڑھا کھود کر اسے کمین گاہ بنا لیا جائے۔ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے اس پر چھکڑے کا پہیہ رکھا جا سکتا تھا۔ یوں گڑھے کے اندر سے میں نہ صرف لاش پر نظر رکھتا بلکہ درندہ ادھر آتا تو خاصی قریب سے اسے نشانہ بھی بنا سکتا تھا۔
یہ منصوبہ راجو کو بھی پسند آیا۔ خوفزدہ مرد نے پہیے کے علاوہ ہمیں زمین کھودنے کا نہ صرف سامان مہیا کیا بلکہ کھدائی میں بھی ہماری مدد کی۔کھدائی کے دوران نکلنے والی مٹی جھونپڑے کے آس پاس پھیلا دی گئی۔ طے یہ پایا کہ میں اس میں بیٹھ کر آدم خور کا انتظار کروں اور راجو شاٹ گن لیے جھونپڑے میں رہے۔ دراصل اس امر کا قوی امکان تھا کہ آدم خور ادھ کھائی لاش کے بجائے جھونپڑے پر حملہ آور ہو جائے تاکہ تازہ شکار کرلے، ایسے میں راجو اسے نشانہ بنا سکتا تھا۔

ہوا کا گزر نہ ہونے کے باعث گڑھے میں اچھی خاصی گرمی تھی۔ میرے سر پر تاروں بھرا آسمان دلفریب منظر پیش کررہا تھا۔ ایک گھنٹے کے جان لیوا انتظار کے بعد اچانک مجھے یوں محسوس ہوا جیسے کوئی قریب ہی کھڑا زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ میں چونکنا ہو کر بیٹھ گیااور رائفل پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ میں خوامخواہ باہر جھانک کر اپنی کمین گاہ کا راز فاش نہیں کرنا چاہتا تھا۔
تھوڑی دیر بعد دبی دبی غراہٹیں سنائی دینے لگیں۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آدم خور بچی کچھی لاش کھانے آپہنچا۔ میں رائفل سیدھی کیے، آہستہ آہستہ پنجوں کے بل اوپر اٹھا اور از حد احتیاط سے پہیہ سرکا کر باہر جھانکا، تو یہ دیکھ کر چونک گیا کہ ایک کے بجائے دو آدم خور وہاں موجود تھے۔
ایک لاش کو اگلے پنجوں میں دبائے خونخوار دانتوں سے نوچ رہا تھا جبکہ دوسرا کچھ فاصلے پر بیٹھا بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایسے رخ پر بیٹھا کہ گڑھا بھی بخوبی دیکھ سکتا تھا لہٰذا اس نے میرا اوپر اٹھتا ہوا سر دیکھ لیا۔
وہ یکدم دھاڑ کر پنجوں پر کھڑا ہو گیا اور مجھے لال انگارہ آنکھوں سے یوں گھورنے لگا کہ پل بھر کے لیے میرا دل دھڑکنا بھول گیا۔ میرے لیے یہ سوچنا دو بھر ہو گیا کہ اب کیا کروں۔ مجھے ایک نہیں دو آدم خوروں کا سامنا تھا۔ اگر ایک پر گولی چلاتا تو دوسرا کود کر مجھ پر آپڑتا۔ میرے اور ان کے درمیان فاصلہ بھی خطرناک حد تک کم تھا۔ میں رائفل تیار حالت میں تھامے سانس روک کر انتظار کرنے لگا کہ پہلے کون سا آدم خور حملہ کرتا ہے، لیکن ہوا اس کے برعکس۔
مزے سے لاش کی ہڈیاں چباتے اور گوشت نوچتے چیتے نے جب یہ دیکھا کہ دوسرا چیتا جارحانہ انداز میں اٹھ کھڑا ہوا ہے اور غرا رہا ہے تو سمجھا کہ وہ اس پر حملہ کرنے لگا ہے۔ یہ مغالطہ میرے لیے کارآمد ثابت ہوا۔ لاش کھانے والے آدم خور نے دل دہلا دینے والی غراہٹوں کے ساتھ دوسرے چیتے پر حملہ کر دیا۔ دونوں آپس میں وحشیانہ لڑنے لگے۔ یہ میرے لیے امداد غیبی ہی تھی۔
میں آہستہ سے پہیہ ایک طرف سرکا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اب میں دھڑتک گڑھے سے باہر تھا۔ میں نے چیتوں کی طرف نظر دوڑائی تو گھاس اور گرد کے بادل کے سوا کچھ دکھائی نہ دیا۔ بس غصیلی غراہٹیں ہی پتا دیتی تھیں کہ اس طرف دو خون آشام درندے گتھم گتھاہیں۔ میں گولی چلا سکتا تھا مگر یوں دونوں میں سے کوئی زخمی ہو کر فرار ہوتا جو میں نہیں چاہتا تھا۔
مجھے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا، کچھ دیر بعد غراہٹوں کی شدت میں کمی آگئی جس کے ساتھ ہی ایک چیتے کی غراہٹیں دور ہوتی سنائی دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پسپا ہو چکا ہے۔ اب میں رائفل کندھے سے لگا کر منتظر تھا کہ کب گرد کا بادل بیٹھے اور میں فاتح درندے کو نشانہ بنالوں۔ چند ثانیے بعد درندہ گرد کے مرغولے میں سے نمودار ہوا۔
ہدف کو چند گز کے فاصلے پر دیکھ کر میں جوش اور خوشی سے بھر گیا میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر اس کی جانب جھونک دیئے۔ ساکت فضا میں چار سو پچاس ایکسپریس کا کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا۔ مگر یہ دیکھ کر میرے ہاتھ پیر پھول گئے کہ گولیوں سے آدم خور کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ شاید میں عجلت میں تاک کر گولی نہ چلا سکا۔
اس سے قبل کہ میں رائفل بھرتا، آدم خور نے غضب ناک دھاڑ کے ساتھ میری جانب جست لگا دی۔ اسے خود پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر میری جو حالت ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ میں جلدی سے جھک کر گڑھے میں دبک گیا اور زندگی بھر کی مشاقی و مہارت بروئے کار لاتے ہوئے رائفل دوبارہ بھرنے لگا۔ عین اسی لمحے فضا شاٹ گن کے فائر سے گونج اٹھی۔
راجو کو شاید میرے گڑھے میں دبکنے ہی کا انتظار تھا۔ افسوس اس کی گولی بھی ضائع گئی کیونکہ عین اسی لمحے میں نے آدم خور کو اپنے اوپر سے جست لگاتے دیکھا۔ اسی لمحے پھر شاٹ گن کا دھماکہ سنائی دیا اور ساتھ ہی ایک ہولناک انسانی چیخ سے میں دہل گیا۔ وہ چیخ میرے ساتھی راجو کی تھی۔
بس پھر کیا تھا، میں اپنی جان کی پروا کیے بغیر اچھل کر گڑھے سے باہر نکلا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دس گز دور لمبی لمبی گھاس بے تحاشا ہل رہی تھی۔ ساتھ ہی غراہٹوں اور انسانی کراہوں کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں جیسے درندہ اور انسان آپس میں گتھم گتھا ہوں۔ جیسے ہی میں قطعہ گھاس کے قریب پہنچا۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
ایک تنومند چیتا راجو سے لڑتے ہوئے اسے پھاڑ کھانے کے چکر میں تھا۔ راجو اس کے خوفناک دانتوں اور تیز نوکیلے پنجوں سے بچنے کی جان توڑ کوشش کر رہا تھا۔ اسی کوشش میں اس کی پگڑی کھل گئی اور لباس جگہ جگہ سے پھٹ گیا جس پر خون کے سرخ سرخ دھبے واضح نظر آرہے تھے۔ یہ دیکھ کر میرا دل ڈوبنے لگا۔
میں جانتا تھا کہ راجو زیادہ دیر اس غیر معمولی طاقتور لحیم شحیم چیتے کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ میں اگر گولی چلاتا تو چیتے سے زیادہ راجو کے نشانہ بننے کے امکانات تھے مگر یوں محو تماشا بھی تو نہیں رہا جا سکتا تھا۔میں نے چیتے کی توجہ ہٹانے کے لیے ایک ہوائی فائر کیا، سماعت پاش دھماکا گونجتے ہی چیتے نے فوراً وحشت ناک نگاہوں سے مجھے گھورا اور خون آلود دانت نکال کر غرایا۔
زخمی راجو کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز برآمد ہو رہی تھیں۔ عین اس لمحے جب چیتا مجھ پر حملہ کرنے یا نہ کرنے کے شش و پنج میں مبتلا تھا۔ میں نے اس کی پیٹھ کا نشانہ لے کر گولی داغ دی۔ وہ میری پیشہ ورانہ مہارت کی کڑی آزمائش کا لمحہ تھا۔ چیتے کی پشت ایسے زاویے پر تھی کہ اگر میرا نشانہ خطا ہوجاتا تو گولی سیدھی راجو کے سینے میں اتر جاتی۔ خوش قسمتی میرے ساتھ تھی، گولی کھا کر چیتا خون آشام غراہٹ کے ساتھ اچھلا۔ اس دوران راجو نے جرات کا مظارہ کرتے ہوئے زمین پر لیٹے لیٹے ہی لوٹ لگائی اور چیتے کی گرفت سے نکل آیا۔
چیتا جیسے ہی تڑپ کر گرا، میں نے تاک کر دوبارہ فائر کر دیا۔ گولی نے اس کی پیشانی کا مہلک بوسہ لیا اور وہ کوئی آواز نکالے بغیر ڈھیر ہو گیا۔ میں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا اور دو مزید گولیاں اس کے وجود میں اتار دیں۔ درندے کی موت کا اطمینان ہونے کے بعد میں تیزی سے راجو کی طرف بڑھا۔ بلاشبہ وہ بڑے مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ جب میں نے اسے تھاما تو اس کے زخموں سے خون ابل کر میرا لباس بھی تر کرنے لگا تاہم وہ چیتے کی موت پر خوش تھا۔ میں اسے اٹھا کر جھونپڑے میں لے گیا۔ خوش قسمتی سے اس کے زخم زیادہ سنگین نہ تھے البتہ خون کافی مقدار میں بہہ گیا تھا۔
اس آدمی کی مدد سے میں نے راجو کو فوراً گاؤں پہنچایا۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔ گاؤں والے رائفلوں کے دھماکوں اور چیتوں کی غراہٹیں سن کر پہلے ہی گھروں سے لاٹھیاں اور ڈنڈے لے کر نکل آئے تھے۔ ان میں میرے تھانے کے سپاہی بھی تھے۔ ضروری مرہم پٹی کے بعد راجو کو میسور کے فوجی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
اگرچہ تلگار تھی کا ساتواں آدم خور میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکا تھا مگر مجھے ایک پل قرار نہ تھا۔ ایک طرف مجھے راجو کی فکر تھی، تو دوسری طرف اس آدم خور چیتے کے متعلق تشویش جو میری آنکھوں کے سامنے سے فرار ہوا تھا۔ اگر راجو کے ساتھ حادثہ پیش نہ آتا، تو میں اسی رات اس کے تعاقب میں نکل کھڑا ہوتا۔ اب مجھے آدم خور کی طرف سے جوابی حملے کا انتظار تھا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جلد یا بدیر کسی آبادی پر حملہ آور ہوگا۔
مجھے یہ بھی یقین تھا کہ تلگار تھی کہ پہاڑیوں میں پایا جانے والا وہ آٹھواں آدم خور چیتا اس جتھے کا آخری رکن تھا جس کے باقی ساتھی میرے ہاتھوں جہنم واصل ہو چکے تھے۔ اس یقین کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ ساتویں آدم خور کی ہلاکت کے بعد آس پاس کی آبادیوں سے کسی واردات کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ لوگ تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ آدم خوروں کا صفایا ہو چکا۔
راجو کو ہسپتال میں دو ہفتے ہوئے تھے جب ایک روز علی الصباح مجھے آدم خور کی تازہ ترین واردات کی اطلاع ملی۔ میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ ایک آدمی بھاگا بھاگا میرے پاس خبر لایا کہ آدم خور نے بالم کوٹ میں ایک آدمی کو ہلاک کر دیا ہے۔ بالم کوٹ وہاں سے تین میل دور تھا۔ میرے وہاں پہنچتے ہی اس بدنصیب کے بھائی نے مجھے حادثے کی تفصیل سنائی۔ مقتول کے گھر کی ایک کھڑکی پہاڑوں کی طرف کھلتی تھی۔ اس کا معمول تھا کہ وہ رات کو کھڑکی کے پاس بیٹھ کر حقہ پیا کرتا۔

اس رات وہ حسب معمول کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا۔ اس کی بیوی دروازے کی دہلیز پر بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔ اچانک کسی درندے کی خون آشام غراہٹ سن کر اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ اگلے ہی لمحے درندے کی غصیلی غراہٹوں میں اس کے شوہر کی دہشت ناک چیخیں بھی مدغم ہو گئیں۔ اس مکان کا دروازہ چار فٹ چوڑی گلی میں کھلتا تھا جس کے دونوں جانب مکان تھے۔
زمین پر نشانات سے چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ چیتا اپنے شکار کو گلی کے آخر تک گھسیٹتا لے گیا۔ پھر اسے ہلاک کرکے ایک ندی کے کنارے ویران کھیتوں میں پہنچا۔ وہاں اس نے اس بدنصیب کو ہڑپ کیا اور بچاکچھا حصہ چھوڑ کر غائب ہو گیا۔
اس قصبے میں آدم خور کی یہ پہلی واردات تھی۔ تجربے کی بنیاد پر مجھے یقین تھا کہ آدم خور اسی گاؤں پر دوبارہ شب خون ضرور مارے گا۔ چونکہ ہم نے لاش صبح صبح ہی دریافت کر لی تھی، اس لیے آدم خور کے استقبال کی تیاری کے لیے میرے پاس پورا دن تھا۔ وہاں پنجوں کے بے شمار نشانات دیکھ کر مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ بستی پر حملہ آور ہونے سے قبل چیتے نے تین چار پھیرے لگا کر اطمینان کر لیا تھا کہ وہ مقام شکار کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔
چیتے کی گزرگاہ کا تعین کر لینے کے بعد میں نے اس جگہ پولیس چوکی کی طرز پر مچان بنانے کا فیصلہ کیا۔ گاؤں والوں کی مدد سے میں نے شام تک جو مچان تیار کی اس سے بہتر اور مضبوط مچان میں نے عمر بھر نہیں دیکھی تھی۔
پہلے زمین پر لکڑی کے تختوں کا ایک چبوترہ بنایا گیا، پھر اس کے گرد کئی بانس مضبوطی سے گاڑ دیئے گئے۔ ان بانسوں کے ساتھ پہلے چبوترے سے چار فٹ بلند ایک دوسرا چبوترہ بنایا گیا اور اس سارے ڈھانچے کے گرد خاردار تار لپیٹ دی گئی۔ جب میں اوپری چبوترے پر سامان خوردونوش کے ساتھ رائفل سمیت براجمان ہو گیا تو گاؤں والوں نے میری ہدایت کے مطابق مچان کو چاروں طرف سے خشک گھاس اور پتوں سے یوں ڈھانپ دیا کہ قریب سے دیکھنے پر بھی اس پر خشک گھاس کے ڈھیر کا گمان گزرتاتھا۔
بیٹھنے کے بعد میں نے چیتے پر گولی چلانے کے لیے گھاس میں ایک سوراخ بنا لیا۔ وہ چاندنی رات تھی اور مجھے برقی ٹارچ کی ضرورت نہ تھی۔ رات کے دس بجے سامنے والی پہاڑیوں سے بندروں کی شرارت بھری آوازیں سنائی دیں اور پھر ہر طرف موت کا سا سکوت چھا گیا۔
یکایک تیز ہوا چل پڑی جس کے باعث درختوں کے پتوں کے ساتھ ساتھ میری کمین گاہ کو ڈھانپنے والی گھاس میں بھی کھڑکھڑاہٹ ہونے لگی۔ میرا دل بری طرح دھڑکنے لگا۔ بندروں کی آوازیں سن کر میں جان گیا تھا کہ کوئی درندہ پہاڑوں سے اتر رہا ہے۔ رات کے اس پہر بھلا آدم خور کے علاوہ کون ہو سکتا تھا؟ لیکن لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی ہوا نے بھی میرے اوسان خطا کر دیئے۔ مجھے یہ دھڑکا لگا تھا کہ کہیں ہوا میری مچان کی گھاس اڑا کر مجھے ظاہر نہ کر دے۔
میرا دماغ انہی خدشات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا کہ اچانک مجھے تیز ہوا کے شور میں دبی دبی غراہٹ سنائی دی، لیکن میں معلوم نہ کر سکا کہ وہ کس سمت سے آئی۔ میں اپنی جگہ ساکت و جامد بیٹھا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر سامنے دیکھتا رہا مگر کوئی ذی روح دکھائی نہ دیا۔ اسی لمحے غرانے کی آواز پہلے سے بلند سنائی دی۔ میں نے بے چینی سے پہلو بدلا اور تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئی اپنے سر پر سے گھاس ہٹا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
اگلے ہی لمحے مجھے یوں لگا جیسے قریب ہی کہیں بادل گرجا ہے، مگر یہ درندے کی گرج تھی جو میرے سر کے عین اوپر سنائی دی۔ میری چھٹی حس نے مجھے خبردار کرتے ہوئے کہا، جلدی کرو ورنہ مارے جاؤ گے، میں برقی سرعت سے اس جانب گھوم گیا۔ عین اسی لمحے مجھے باڑ کا سہار ا لیے ہوئے چیتے کا خوفناک سر نظر آگیا۔وہ مکار درندہ گھاس کی اوٹ لے کر عقب سے مجھ پر حملہ آور ہوا چاہتا تھا۔ اس کی انگارہ آنکھیں مجھ پر مرتکز تھیں۔
میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر اس پر جھونک دیئے۔ درندہ خون آشام گرج کے ساتھ الٹ کر دور جا پڑا۔ میں نے جلدی سے گھاس ہٹا کر نیچے جھانکا، دور دور تک کسی ذی روح کا نام و نشان نہ تھا۔ نہایت قریب سے چیتے کا سامنا کرنے پر میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ یک لخت چبوترے کے نیچے کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور ایک قد آور چیتا نکل کر پہاڑوں کی طرف بھاگ نکلا۔ میں نے اس پر یکے بعد دیگرے تین گولیاں چلائیں مگر تینوں خطا گئیں۔
تھوڑی دیر قبل میں جس کیفیت سے دوچار ہوا تھا اس نے میرے حواس بری طرح متاثر کر دیئے تھے۔ شاید اس لیے میں درست نشانہ نہ لگا سکا اور آدم خور میری نظروں کے سامنے پہاڑوں میں روپوش ہو گیا۔
وہ رات میں نے مچان پر ہی گزاری۔ جب پوپھٹے گاؤں سے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح نوجوان پہنچے تو میں نیچے اترا۔ زمین کا معائنہ کرنے پر میں نے دیکھا کہ ایک جگہ چیتے کا خاصا خون اور کچھ فاصلے پر ایک نوکیلا دانت پڑا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ میری ایک گولی نے اس کا جبڑا زخمی کر ڈالا تھا۔
میں نے ناشتے کے بعد گاؤں والوں کو چوپال میں جمع کیا اور آدم خور کے خلاف ان کے جذبات ابھارتے ہوئے ان سے ہانکا کرنے کو کہا۔ پہلے تو آدم خور کی ہیبت کے باعث کوئی تیار نہ ہوا لیکن جب میں نے انہیں یقین دلایا کہ درندے کو کاری زخم آئے ہیں اور اب محض اسے ڈھونڈ کر جہنم واصل کرنا باقی ہے تو خاصی حیل و حجت کے بعد بارہ مضبوط و توانا نوجوان میرا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگئے۔
تھوڑی دیر بعد ہانکا کرنے والے خالی ٹین گلے میں لٹکائے میرے دائیں بائیں نصف دائرے کی صورت پھیل کر آگے بڑھنے لگے جبکہ میں ان کے وسط میں چیتے کے خون اور پنجوں کے نشانات کا بغور جائزہ لیتا آگے بڑھتا رہا۔ پہاڑی علاقہ شروع ہونے سے قبل راہ میں خاصا گھنا اور دشوار گزار جنگل پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ دور دور تک کوئی ایسا مقام نہ تھا جہاں چیتا پناہ لیتا۔ میں چونکہ تلگار تھی کے سات آدم خوروں کو بڑی کامیابی سے ٹھکانے لگا چکا تھا، اس لیے کچھ زیادہ ہی بے باک اور نڈر بن گیا۔ تاہم مجھے علم تھا کہ یہ آخری آدم خور آسانی سے ہتھے چڑھنے والا نہیں۔
ہم جوں جوں آگے بڑھے جنگل دشوار گزار ہوتا گیا۔ آخر ہم ایسے مقام پر جا نکلے جہاں چھ چھ فٹ اونچی خاردار جھاڑیاں جا بجا راہ میں حائل تھیں۔ جب میں نے ان جھاڑیوں میں گھسنے کی کوشش کی تو باریک کانٹوں نے میرے کپڑے تار تار کر دیئے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ دے دیا۔ رکتے ہی ان کے ٹین پیٹنے میں شدت آگئی۔ ایک مقام پر چیتے کے بالوں کا گچھا اٹکا دیکھ کر میں ٹھٹک گیا۔ اس سے ذرا آگے کافی مقدار میں خون کے چھینٹے بھی نظر آئے۔
میں نے ساتھیوں سے کہا کہ ٹین پیٹنا بند کر دیں۔ مجھے یقین تھا کہ مفرور چیتا انہی جھاڑیوں میں کہیں دبکا بیٹھا ہے۔ تصدیق کے لیے میں نے مٹی کے چند ڈھیلے جھاڑیوں میں پھینکے تو موذی درندہ ہولے سے غرایا۔ چیتے کی غراہٹیں سن کر میرے ساتھی آن واحد میں پلٹ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مجھے ان سے ایسی ہی بزدلی کی توقع تھی۔ اب میں تنہا درندے کے مقابل تھا۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھی تو جھاڑیوں میں دو تین فائر جھونک دیئے۔ جنگل کا سکوت ان گنت پرندوں اور بندروں کی چیخوں سے درہم برہم ہو گیا۔ چند ہی ثانیے بعد ان آوازوں میں چیتے کی غراہٹیں اور دور ہوتی ہوئی گرج بھی شامل ہو گئی۔
اگر خاردار جھاڑیاں میری راہ میں حائل نہ ہوتیں تو تلگار تھی کے آخری آدم خور کا قصہ اس وقت تمام ہوجاتا بہرحال میں اپنی ناکامی پر کف افسوس ملتا گاؤں واپس پہنچا تو لوگوں نے مجھے گھیر لیا۔ مجھے ان سب کی بزدلی پر رہ رہ کر غصہ آرہا تھا مگر میں جانتا تھا کہ ان کا بھاگ جانا فطری عمل تھا۔
میں سمجھتا تھا کہ زخمی چیتا زیادہ دیر بھوک برداشت کرنے کے باعث جلد کسی نہ کسی انسان کی تلاش میں یہاں کا رخ کرے گا لیکن چار دن گزرنے کے باوجود اس کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔ امید و بیم کی یہ کیفیت حد درجہ اعصاب شکن اور حوصلہ پست کر دینے والی تھی۔ میں جلد از جلد اس سے نجات چاہتا تھا۔ جب ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود اس کی کوئی خبر نہ ملی تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مر گیا ہے۔

ایک روز میں نے گاؤں والوں کو چوپال میں جمع کیا اور ان پر زور دیا کہ چیتے کو تلاش کریں، کہیں نہ کہیں اس کی لاش مل جائے گی۔ مگر آدم خور کی ہیبت ان کے دلوں پر اس قدر مسلط تھی کہ کسی نے بھی میرا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر نہ کی۔ ادھر میری رخصت کی معیاد ختم ہونے میں صرف چار دن رہ گئے تھے۔ اگر راجو زخمی نہ ہوا ہوتا تو میں اس کے ہمراہ پہاڑوں کا رخ کر سکتا تھا مگر تنہا جانے میں کئی خطرات تھے۔ چیتوں کے علاوہ ان پہاڑوں میں دوسرے خطرناک درندوں اور زہریلے کیڑے مکوڑوں کی بھی بہتات تھی، اس لیے تنہا وہاں جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔
جب میری رخصت ختم ہونے میں دو دن باقی تھے تو میں گاؤں سے باہر برگد تلے نمبردار کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا کہ دور پہاڑوں کے دامن میں گرد کا بادل سا اڑتا نظر آیا۔ جو آہستہ آہستہ قریب ہوتا گیا۔ مزید قریب آنے پر ہمیں ایک گھوڑے کا ہیولا نظر آیا۔
جب وہ قریب آیا تو دیکھا کہ گھوڑے کی پشت پر ایک شخص اوندھا پڑا تھا۔ اس کی پشت اور ٹانگوں پر جا بجا گہری خراشیں تھیں جن سے خون رس رہا تھا۔
اجنبی کے زخم دیکھ کر میں نے اندازہ لگایا کہ اس کی کسی چیتے کے ساتھ مڈبھیڑ ہوئی ہے۔ پہاڑوں میں چونکہ چیتوں کی بہتات تھی اس لیے مجھے اس کی حالت دیکھ کر حیرانی نہیں ہوئی البتہ مجھے یقین ہو گیا کہ ان پہاڑوں میں مردم آزار کا وجود ابھی تمام نہیں ہوا۔ یہ بھی بعید نہ تھا کہ گھڑ سوار پر اسی چیتے نے حملہ کیا ہو جو میرے ہاتھوں زخمی ہو کر بھاگ نکلا تھا۔
زخمی تاحال بے ہوش تھا۔ حکیم کے مطابق اس کی وجہ بکثرت خون بہ جانا تھی اور چند گھنٹوں بعد اسے ہوش آجانا تھا۔ اجنبی سے فارغ ہو کر میں اس کے گھوڑے کی طرف متوجہ ہوا مگر وہ بار بار گردن موڑ کر اپنے مالک کی طرف دیکھتا تھا۔ یقینا وہ سدھایا ہوا اور اپنے مالک کا انتہائی وفادار تھا۔
میرے قریب جانے پر اس نے منہ اٹھایا اور زور سے ہنہنایا۔ میں نے اسے چمکارا، قریب جا کر اس کی پیٹھ تھپکی اور اس کی لگام گھونٹے سے کھول کر تھام لی۔ گھوڑے نے ایک جھٹکے سے لگام میرے ہاتھ سے چھڑائی اور پھریری لے کر زخمی کی طرف بڑھ گیا۔
گھوڑا اپنے مالک کو سونگھنے لگا۔ اس کی طرف سے کوئی حرکت نہ ہونے پر وفادار حیوان بار بار پچھلے سم زمین پر مار کر بے چینی کا اظہار کرنے لگا۔ شکاری ہونے کے ناتے میں سمجھ گیا کہ گھوڑا کسی مخصوص مقام پر جانے کا اشارہ کر رہا ہے۔
میں فوراً اپنا ساز و سامان تیار کرکے اجنبی کے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ خلاف توقع اس نے کسی قسم کی مزاحمت نہ کی۔ جیسے ہی میں نے اس کی لگامیں ڈھیلی چھوڑیں، وہ سبک رفتاری سے تلگار تھی کی پہاڑیوں کی جانب رواں دواں ہو گیا۔
دوپہر کے وقت میں میدانی علاقہ پار کرکے ایک ایسی جگہ پہنچا جہاں وقفے وقفے سے چھوٹی بڑی چٹانیں راہ میں حائل ہونے لگیں۔اب گھوڑے کی رفتار سے بھی تھکن جھلکنے لگی تھی۔ میں نے اسے تھوڑی دیر سستانے کا موقع دینے کی غرض سے لگامیں کھینچیں لیکن وہ نہیں رکا اور آگے بڑھتا رہا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ تھکن اور پیاس کے باوجود جلد از جلد کسی خاص جگہ پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پگڈنڈی نما راستے پر دوڑتے ہوئے اچانک گھوڑا ایک چٹان کے قریب خود بخود آہستہ ہو گیا۔
اس کے کان یوں متحرک ہوگئے جیسے وہ کوئی آواز سننے کی کوشش کررہا ہے۔ چٹان سے ایک راستہ بائیں جانب جاتا تھا، گھوڑا اسی پر گھوم گیا۔ آگے نشیبی علاقہ تھا۔ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ ایک جگہ رک گیا۔
سنگلاخ چٹانوں میں گھری ہوئی ایک چھوٹے سے سرسبز و شاداب تالاب سے ذرا فاصلے پر قطار میں تین غار تھے، ان میں سے ایک کے دہانے پہنچ کر گھوڑا اپنے اگلے سم زور زور سے چٹانوں پر مارنے لگا۔
میں غور سے اس کا مشاہدہ کرہی رہا تھا۔گھوڑا اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر زور سے ہنہنایا۔ اس سے قبل کہ میں صورتحال کا درست اندازہ لگا پاتا، عقب سے چیتے کی غصیلی غراہٹ ابھری اور میں قطعی غیر ارادی طور پر پلٹ گیا۔ افسوس اس وقت تک چیتا عقبی چٹان سے میری جانب جست لگا چکا تھا۔ اس کی انگاروں بھری آنکھیں، کھلے پنجے اور خونخوار دہانہ لمحہ بہ لمحہ میرے قریب ہو رہے تھے۔ میں نے اپنے اوسان بحال رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی اور زمین پر پڑی رائفل کی طرف جست لگا دی۔
چیتے کا جسم اتنی قوت سے میرے بدن کے ساتھ ٹکرایا کہ میں رائفل تک پہنچنے سے قبل ہی اس کے وجود تلے دب کر کھردری زمین سے جا ٹکرایا۔ آن واحد میں درندہ مجھ سے لپٹ گیا۔ چیتے سے مڈبھیڑ ہونے کا یہ میرا پہلا موقع نہیں تھا۔ میں جانتا تھا کہ حواس قابو میں رکھ کر میں خود کو درندے کی گرفت سے آزاد کراسکتا ہوں۔ چیتا میرا داہنا شانہ جبڑوں سے بھنبھوڑنے لگا۔ اس نے میری دونوں رانیں مضبوطی سے اپنے پچھلے پنجوں میں جکڑ رکھی تھیں۔ میں نے دونوں پیر پوری قوت سے اٹھائے اور ان کے زور سے چیتے کا وزن ایک طرف ڈالنا چاہا۔
عین اسی لمحے فضا رائفل کے دھماکے سے گونج اٹھی اور گرم گرم خون کا فوارہ میرے چہرے پر پڑا۔ چیتے کے پیٹ کے چیتھڑے اڑ چکے تھے۔ میں نے فوراً دونوں پاؤں سمیٹے اور زخمی چیتے کو پوری قوت سے ایک طرف اچھال دیا۔ اسی لمحے رائفل دوسری مرتبہ گرجی اور چیتے کا سر پاش پاش کر گئی۔
میں نے زخموں سے چور اپنا وجود سمیٹا اور چٹان کے ایک ابھرے ہوئے کونے کا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ مجھے ایک شخص رائفل تھامے کسی چٹان کی مانند کھڑا نظر آیا۔ میں بائیں ہاتھ سے اپنا زخمی شانہ دبائے زمین پر ڈھیر ہوگیا۔ ساتھ ہی مجھے بے اختیار ابکائی آئی اور میں حواس سے بیگانہ ہوتا چلا گیا۔

٭……٭

ہوش آنے پر میں نے خود کو پیال پر پڑے پایا۔ میرا زخم صاف کرکے پٹی کر دی گئی تھی۔ سرہانے وہی شخص متفکر انداز میں بیٹھا تھا۔ جیسے ہی میں نے آنکھیں کھولیں اس نے ایک برتن میرے منہ سے لگا کر نہایت شیریں سیال انڈیل دیا۔ کچھ دیر بعد مجھے اپنے اندر توانائی آتی محسوس ہوئی۔
جب میں اپنے حواسوں میں آیا تو اس نے مجھے سہارا دے کر بٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”خیریت سے ہو؟“ میں نے تکلیف بھری سسکاری کے ساتھ اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا۔ ”ہاں“
یوں کچھ عرصے میں ٹھیک ٹھاک ہو کر واپس دہلی آگیا۔ اس واقع کو کئی برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی تلگار تھی کا نام سنتے ہی پورا واقعہ آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی مانند گھوم جاتا ہے۔

٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top