skip to Main Content
آئیڈیاز کلینک

آئیڈیاز کلینک

محمد الیاس نواز

اس آئیڈیاز کلینک میں مریض کا ایسا علاج کیا جائے گا کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی یاد رکھیں گی۔

کردار:
ڈاکٹر: ایک ادھیڑ عمر شخص
سلمیٰ: فرماں بردار نرس
مریض: ایک بزرگ شخص
خاتون: مریض کی بیٹی
سلیم: بزرگ کا ملازم

پس منظر

ایک ایسے کلینک کا منظر ہے کہ جہاں علاج کا کوئی طریقہ مقررنہیں ہے،علاج کرتے ہوئے جو آئیڈیا ذہن میں آجائے اسی کے مطابق عمل کیا جاتا ہے۔مریض کے لئے ایک بیڈ موجودہے،ایک ٹیبل جس پر بیس لیٹر کا گیلن رکھا ہے، ایک کونے میں کسی چیز سے بھری ہوئی بوری اوراس کے ساتھ بیلچہ بھی رکھاہے۔

(پردہ ہٹتا ہے)

منظر

 

مریض کے خالی بیڈ کے پاس ڈاکٹر اور نرس کسی مریض کے آنے کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں ۔اتنے میں ایک کراہتے ہوئے بزرگ مریض کو اس کا ملازم سہارا دے کر کلینک میں لاتا ہے۔مریض داخل ہوتے ہی مشین کی طرح بولتا چلاجاتا ہے۔

 
مریض:’’آہ ہ ہ….ڈاکٹر!میرے پاؤں کی ہتھیلیوں میں گھبراہت….بالوں کی نوکوں میں درد…..میرے لہجے میں زخم….میرے خیالات میں دکھن….،انگلیوں کی ناخنوں میں گھٹن….. اور آنکھوں کی نظر میں تکلیف…..اُف ف ف…ہائے ے ے…..‘‘

 
سلیم:(نرس کی طرف دیکھتے ہوئے)’’وہ!…بیماریوں کا مینیو کارڈ مل جائے گا؟….ذرا جلدی سے دے دیجئے…ان کو بہت تکلیف ہے۔‘‘

 
ڈاکٹر:(مریض کو کھینچ کر جلدی سے بیڈ پر لٹاکر سلیم کو ڈانٹے ہوئے)لہجے میں زخم ….اوہو،ارے جلدی لٹائیے !ان کی حالت خراب ہو رہی ہے اور تمہیں مینیو کارڈ کی پڑی ہوئی ہے….لٹنے میں بھی چوائس مانگ رہے ہو….آپ آ گئے ہیں تو بیماریوں کے سارے آئیڈیے ہمارے ہوں گے….مینیو کارڈ بہت وسیع ہو جائے گا…..آج بہت ساری ایسی بیماریاں ایجاد ہوں گی جو پہلے کسی ڈاکٹر کودریافت کرنے کی بھی جرأت نہیں ہوئی۔‘‘

 
سلیم:(نا سمجھتے ہوئے)’’وہ کیسے جی؟‘‘

 
ڈاکٹر:’’وہ چھوڑو…وہ ہمارا کام ہے………پہلے کس ڈاکٹر کے پاس گئے تھے؟‘‘

 
سلیم:’’سر!وہ….ڈاکٹر عبدل کے پاس۔‘‘

 
ڈاکٹر:(ترچھی نظر سے دیکھتے ہوئے)’’جو خود حکیم کے پاس گیا ہوا ہوتا ہے؟‘‘

 
مریض:(جلدی سے)’’جی سر،جی سر…… وہی۔‘‘

 
ڈاکٹر:(سلیم سے)’’تو پورا نام کیوں نہیں لیتے….اس کا نام عبدل نہیں عبدالبشریٰ ہے….ذرا درمیانے درجے کی چیز ہے…..‘‘

 
(اس کے بعد ڈاکٹر خود ….منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہے ….’’اس سے اچھا توتھاکہ ڈاکٹر عزرائیل کے ملک الموت کلینک چلے جاتے…..بیمار زندگی سے شفا مل جاتی‘‘۔)

 
مریض:(نہ سمجھنے والے انداز میں)’جی..؟‘‘

 
ڈاکٹر:(بات ٹالتے ہوئے مریض کے ٹخنے کے پاس سے ٹانگ کو پکڑلیتا ہے)’’کچھ نہیں….کچھ نہیں….ذرا نبض دیکھ لوں…اوہو نبض کی رفتارتومیٹرو بس جیسی ہے…(تھرما میٹر پاؤں کی انگلیوں میں دیتے ہوئے)..’’ایک سو ساڑھے چار بخار….اُف ف ف‘‘….(.اسٹیتھو اسکوپ یعنی ٹونٹیاں مریض کے پاؤں کے تلوؤں پر لگاتے ہوئے)…’’سینے میں بھی بلغم ہے۔‘‘

 
سلیم:’’یہ کونسا سینہ ہے جی؟‘‘

 
ڈاکٹر:’’بیوقوف !…ان کا دماغ جب گھٹنوں میں ہے توخود ہی سوچو …..سینہ سر سے اتنا ہی نیچے ہوتا ہے جتنے ان کے پاؤں ان کے گھٹنوں سے نیچے ہیں …..چپ کر کے کھڑے رہو…..ذرا بیماری کو سمجھنے دو۔‘‘(چیک کرنے کے بعد اطمینان سے)…’’مبارک ہو بڑی بیماری نکل آئی ہے۔‘‘

 
نرس:(خوش ہوتے ہوئے)’’سر!…کیاٹی بی ہے؟‘‘

 
ڈاکٹر:’’نہیں!جس تیزی سے یہ بولتے ہوئے آئے تھے، مجھے شک تھا کہ زبان کا کینسر ہے…… ٹانگ کا آپریشن ہوگا…..سلمیٰ ٹوکا لے آؤ جلدی سے….‘‘

 
مریض:’’ہیںںں!بیمار زبان ہے اور آپریشن ٹانگ کا……اور وہ بھی ٹوکے سے؟…..اوربغیر آپریشن تھیٹرکے؟‘‘

 
ڈاکٹر:(اعتماد کے ساتھ)ہاں ہاں…..ارے بھئی،تو پھر یہ آئیڈیاز کلینک کس بات کا؟…..ہم تو کان میں دوائی ڈال کر ٹانگ کا علاج کر لیتے ہیں…..میں کوئی پاگل ہوں جو زبان کاٹ دوں…..کبھی سنا ہے کہ زبان کا آپریشن ہوا ہو……مگر آپریشن کرنا بھی توہے نا……تو ٹانگ ہی ٹھیک رہے گی….سلمیٰ منہ کیا دیکھ رہی ہو….ٹوکا لے آؤ بھئی….ہم آپریشن تھیٹر کے محتاج نہیں……ہم تو چائے پیتے ہوئے ہوٹل پر ہی لٹا کر آپریشن کر دیتے ہیں…… لڑنے والے کا۔‘‘

 
سلیم:’’مگر ٹوکے سے کبھی آپریشن ہوا ہے؟‘‘

 
ڈاکٹر:’’ہمارے آئیڈیاز الگ ہیں…..ہم ذرا ہٹ کر سرجری کرتے ہیں۔ایسا ڈاکٹر،ایسی نرس ،ایسا کلینک یا ایسی کوئی بھی چیز پہلے آپ نے دیکھی ہے؟…..سلمیٰ جلدی لے کر آئیے ٹوکا۔‘‘

 
نرس:’’سر! ٹوکا نہیں چلے گا اتنی بڑی ہڈیوں پر……‘‘

 
ڈاکٹر:’’ارے ہم نے ان کی ہڈیوں کا کیا کرنا ہے…..ہم نے تو انکا گوشت ادھیڑنا ہے….. جلدی سے کچھ بھی لے آئیے….بلیڈ ہو…کسی ٹین کا پتراہو….کٹر ہو….کچھ بھی نہ ملے تو برابر والے حجام سے استرا ہی لے لیجئے….مگر جلدی..‘‘

 
نرس:’’سر آئیڈیا!….. آری لے آتی ہوں۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’ارے بھئی وہ پڑوس والے بڑھئی کی ہے ،ٹوٹ گئی تولڑے گا…..ہم ڈاکٹر ہو کر آری کے لئے لڑتے اچھے لگیں گے؟‘‘

 
نرس:’’سر!پھر تو ان کی اپنی زبان سے ہی ان کا آپریشن کر دیجئے۔‘‘

 
مریض:(نرس کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے )’’یہ کون ہے افریقہ کی چڑیل۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’خبردار! زبان سنبھال کر بات کیجئے…یہ یہاں کی سگی نرس لگتی ہے… سمجھے آپ!۔‘‘

 
مریض:’’آپ ڈاکٹر ہیں یا قصائی؟‘‘

 
ڈاکٹر:(سلمیٰ کا لایا ہوا ٹوکا دیکھتے ہوئے لا پروائی سے)’’آپ کو مایوسی ہوگی….آپ کوبہت دیر ہوگئی ہے…..قصائی تو میں جانوروں کا ڈاکٹر بننے سے بھی پہلے تھا،اب تو میں انسانوں کاڈاکٹر ہوں…..یہ بات تو پرانی ہوگئی۔‘‘

 
مریض:’’مجھے نہیں کرواناآپریشن،چیر پھاڑ رہنے دیجئے ۔بس مجھے دوائی دے دیجئے۔‘‘

 
ڈاکٹر:(نرمی کے ساتھ)’’کوئی بات نہیں آپ کی مرضی ہے،کوئی زبردستی نہیں…انجیکشن لگوا کر دوائی لے لیجئے۔(مریض کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے)خون کی بھی کمی لگتی ہے۔سلمیٰ!ایسا کرتے ہیں کہ ان کو انار کے جوس کی ایک بوتل لگا دیتے ہیں۔‘‘

 
نرس:’’سر انار کا تو موسم ہی نہیں ہے۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’ارے توپہلے جو یہ سارے کام ہم کرتے ہیں….ان کا موسم ہوتا ہے؟….کسی بھی کمپنی کا ایک ڈبہ انار کے جوس کا منگوالو،یہ کونسا مشکل کام ہے۔‘‘

 
نرس:’’سر وہ پینے میں ٹھیک رہتا ہے، لگانے میں نہیں….آپ مریض کی فکر نہ کیجئے ،وہ میں منگوا کر پی لوں گی…..مجھے ایک آئیڈیا آیا ہے۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’ جلدی بتاؤ!‘‘

 
نرس:’’ سر،ان کو تربوز کے رس کا ایک ڈرپ لگا دیتے ہیں۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’ویری گڈ آئیڈیا….جلدی سے منگوا کررس نکلوا لو۔‘‘

 
سلیم:’’یہ ٹھیک تو ہوجائیں گے نا؟‘‘

 
ڈاکٹر:’’میں نے بڑی بڑی بیمار بھینسوں کو ٹھیک کیاہے یہ کیا چیز ہیں۔اور اگر ٹھیک نا بھی ہوئے تو موت فوت تو ہے ہی…‘‘

 
مریض:(اٹھتے ہوئے)’’ڈاکٹر صاحب کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘

 
ڈاکٹر:(دوبارہ بیڈ پر لٹاتے ہوئے)’’ارے کچھ نہیں ،کچھ نہیں لیٹے رہئے،آپ آپریشن تو کروا نہیں رہے ،ایسا کرتا ہوں آپ کو ایک انجیکشن لگا دیتاہوں اور دوائی دے دیتا ہوں۔سلمیٰ !…..توتولولوکا انجیکشن بنا دیجئے… ذراجلدی سے ……مجھے انجکشن لگانے کا ایک نیا آئیڈیا آیا ہے….آج میں انہیں نئے آئیڈیے کے ساتھ انجیکشن لگاؤں گا۔‘‘

 
(نرس انجیکشن بنا کر دیتی ہے تو ڈاکٹر مریض کے پاس کھڑے ہو کر اپنی مٹھی میں خنجر کی طرح انجیکشن کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے سر سے اوپر لے جاتاجسے دیکھ کرمریض چیخنے لگتا ہے)۔

 
مریض:(اٹھتے ہوئے)’’یہ ….یہ ..کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘

 
ڈاکٹر:(اطمینان سے)’’ہم انجیکشن ذرا گھونپ کر لگاتے ہیں۔‘‘

 
سلیم:’’انجیکشن ہے یا خنجر جو گھونپ کر لگاتے ہیں؟‘‘

 
ڈاکٹر:’’بیوقوف!خنجرتو ساری دنیا گھونپتی ہے مگر ٹیکا گھونپ کر صرف ہم ہی لگاتے ہیں ….سمجھے!‘‘

 
(ڈاکٹر پھر انجیکشن لگانے کو پر تولنے لگتا ہے)

 
سلیم:(چیختے ہوئے)’’سر یہ بہت سخت جان ہیں، انجیکشن ٹوٹ جائے گا۔گھونپ کر مت لگائیے۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’اچھا ٹھیک ہے …(چٹکی بجاتے ہوئے،سلمیٰ سے)آئیڈیا!!!…..ایسا کیجئے ہتھوڑا لے آئیے….. ٹھوک کر لگا لیتے ہیں۔‘‘

 
مریض: (چیختے ہوئے)’’مجھے نہیں لگوانا انجیکشن، بس دوائی دے دو…..مجھے نہیں ٹھکوانا ٹیکا۔‘‘

 
نرس:(گھورتے ہوئے)’’آئے ہائے……..کیوں نہیں لگوانا انجیکشن؟….انجیکشن بھی نہیں لگوانا، آپریشن بھی نہیں کروانا….تو بل کہاں سے بنے گا……پھر ہم نے تو چلا لیا آئیڈیاز کلینک….انجیکشن والی دوائی تو لگے گی ہی لگے گی…..چاہے گولی والا آئیڈیا ہی کیوں نہ اپلائی کرنا پڑے۔‘‘

 
سلیم:’’ وہ کونسا آئیڈیا ہے جی؟‘‘

 
نرس:’’پہلے بھی آپ کی طرح کے ایک بزدل اورانجیکشن سے بھاگتے ہوئے مریض پر ڈاکٹر صاحب نے دوائی میں ڈبوئی ہوئی گولی کوبندوق سے فائر کیا تھا…..کیا کرتے ….دوائی تو پہنچانی تھی نا جسم میں۔‘‘

 
مریض:(خوف زدہ ہوکر اٹھتے ہوئے)’’ وہ تو…..وہ تو مر گیا ہوگا؟‘‘

 
نرس:(مریض کو بیڈ پر دھکا دیتے ہوئے)’’مر تو گیا تھا مگر بیماری بھی تو نہیں رہی تھی نا باقی……دوائی تو پہنچا دی نا ہم نے۔‘‘

 
ڈاکٹر:(سمجھانے والے انداز میں)’’سلمیٰ،سلمیٰ!…..تمہیں لاکھ بار سمجھایا ہے کہ ایک ہی آئیڈیا ہر جگہ اپلائی نہیں ہوتا….وہ آئیڈیا اُس مریض کے لئے تھا….گولی جلدی سے جسم سے پار ہو جاتی ہے….پھر گولی پر تو دوائی لگتی ہے…..ان کو نیزے پر زہر لگا کر مارنا پڑے گا تاکہ وہ آرپار نہ ہوبلکہ تھوڑی دیر جسم میں پھنسا رہے ..تاکہ زہر کے اثر سے بیماری مر جائے۔‘‘

 
مریض:(التجائیہ انداز میں)’’میں آپ کو انجیکش کا بل بھی دے دوں گا مگر خدا کے واسطے انجیکشن رہنے دیجئے۔‘‘

 
ڈاکٹر:(ناراض ہوتے ہوئے )’’یہ بات ٹھیک نہیں….ذرا سوچ سمجھ کر بات کیجئے ….آپ کا گھٹنوں والا حصہ کام نہیں کرتاکیا؟….ہم کوئی بے ایمان ہیں جو بغیر انجیکشن لگائے آپ سے پیسے لے لیں گے!….ہم نے لینے ہوں گے تو گولی یا نیزہ مار کرہی لیں گے۔‘‘

 
مریض: ’’گھٹنوں سے یاد آیا…..میرے گھٹنوں میں کبھی کبھی درد ہوتا ہے۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’اوہو!…..جب زیادہ سوچیں گے تو…..بھیجے والی جگہ پر درد توہوگا نا….جوتوں کا علاج کروائیے…..میں آپ کو دوائی دیتا ہوں۔‘‘

 
مریض:(سکھ کا سانس لیتے ہوئے)’’جی شکریہ بہت بہت۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’آپ کا گلا خراب ہے….ہلکے تیزاب کے غرارے کرکے بندوق کی نالی صاف کرنے والا برش مارلیجئے گا گلے میں…..اب میںآپ کو دوائی دیتا ہوں۔‘‘

 
سلیم:’’ڈاکٹر صاحب!یہ دوائی پینے میں بہت تنگ کرتے ہیں، زبرستی پلانی پڑتی ہے۔‘‘

 
ڈاکٹر:(بیس لیٹر کے گیلن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)یہ دوائی ….صبح،دوپہر،شام…دودو جوتے آٹھ نمبر کے بھر کرپلاؤ….ٹیبل شوز ہوں تو بھی کوئی مسئلہ نہیں……( بوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)اس میں ڈھائی ،ڈھائی کلو کی پڑیاں ہیں…روزانہ نہار منہ ایک دینی ہے…..اور اگر یہ تنگ کریں تو…..(سلیم کو بیلچہ دیتے ہوئے)…یہ بڑے والے چمچ سے ساری ایک ساتھ دے دینا….دیکھی جائے گی۔‘‘

 
سلیم:’’ان کو زبان کی بھی کوئی دوائی دے دیجئے،لہجے میں بہت درد رہتا ہے انہیں۔‘‘

 
ڈاکٹر:’’ان کی زبان کی نوک کو کسی چیز سے پکڑ کر باہر کھینچیں اور اس پرکڑوے تیل کی ہلکے ہاتھ سے مالش کریں اوراگر اس میں بھی یہ تنگ کریں تو (ایک ڈبہ دیتے ہوئے)یہ مرہم بڑی احتیاط سے زبان کے زخموں پر کانٹوں کی نوک سے لگا لیا کرو اور پھر پٹی باندھ دیا کرو۔‘‘

 
(اتنے میں ایک خاتون چیختی ہوئی کلینک میں داخل ہوکرسلیم سے مخاطب ہوتی ہے)

 
خاتون:سلیم!….تم انہیں یہاں کہاں لے آئے بیوقوف…. میں کب سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئی ہوں اباجی کو..تمہیں منع بھی کیا تھا کہ آئیڈیاز کلینک والوں کا ایک بھی آئیڈیا اچھا نہیں ہے….نہ یہ گوشت بیچ سکتے ہیں،نا انہیں علاج کرنا آتا ہے…..البتہ ٹھیلے لگا سکتے ہیں اور وہ بھی آئیڈیاز کے….اس سے اچھے آئیڈیاز تو ہمارے اپنے گھر کے ہیں…امی خود اچھا خاصا علاج کرتو دیتی ہیں ان کا….آج بھی صبح سے ہلکے چمڑے کے جوتے بھگو کر رکھے ان کا انتظار کر رہی ہیں…..جلدی چلئے…‘‘

 
(ساتھ ہی مریض کو کھینچتی ہوئی باہر لے جانے لگتی ہے کہ ڈاکٹر ہکلا کر بولنے لگتا )

 
ڈاکٹر:(جھجکتے ہوئے)’’وہ…..دا..وائی….وہ بل….وہ..‘‘

 
خاتون:(جوتی اتارکر واپس آتے ہوئے)’’ہاں!! کتنا ہوا بل ….بولئے!…..کتناہوا…..ہیں….. ابھی نقد دیتی ہوں…آئیڈیاز کلینک…..تندرت لاشیں بھیجنے کا پروڈکشن سینٹر….ہیں ں‘‘
ڈاکٹر اور نرس بھاگ جاتے ہیں…..(پردہ گرتا ہے)۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top